Tuesday 9 May 2017

ساہنو کی۔۔۔





مہر فتح علی سے نمبر داری تو جاتی رہی مگر پنچائیت آج بھی انکے گھر کے سامنے لگے نیم کے درخت کی چھاؤں میں ہی بیٹھا کرتی ہے، گاؤں کے چھوٹے موٹے فیصلے تو چٹکیوں میں ہی نمٹا دیا کرتے تھے مہر صاحب، کبھی جو کوئی بڑا مسئلہ آتا تو ایس ایچ او کے حوالے کر کے خود چند دن واسطے سیر سپاٹے پہ نکل جایا کرتے تھے، گاؤں کے نمبردار چوہدری عنایت کو دیکھ کر اکثر ناخوش ہو جایا کرتے تھے مہر صاحب، جب سے نمبرداری چوہدری کے پاس گئی تھی مہر صاحب کو چند پنچائیتیوں کے سوا لوگوں نے دور سے سلام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا، اور چوہدری کو مہر صاحب اس لئیے ایک آنکھ نا بھاتے تھے کیونکہ مہر صاحب اکثر علاقے کے ایس ایچ او سے مل کر چوہدری کے خلاف کسی نہ کسی چکر کو چلائے رکھتے تھے۔ ایک دن ساتھ والے گاؤں سے کچھ مہمان آئے چوہدری کے پاس، کسی لڑکا لڑکی کا کوئی مسئلہ تھا جسکا حل چاہتے تھے، چوہدری نے مہر صاحب کو بھی بلا لیا تاکہ مسئلہ باہمی مشاورت سے حل کیا جائے۔ مہر جب کمرے میں داخل ہوا تو مہمان اور چوہدری باتوں میں مشغول تھے، کسی نے مہر کی آمد پہ توجہ نہ دی، مہر خاموشی سے بیٹھ گیا، خیر گفت و شنید ہوئی اور مسئلے کا حل نکال لیا گیا، جاتے ہوئے مہمانوں میں سے ایک شخص نے مہر سے پوچھ لیا کہ کیا وہ چوہدری کا کوئی خاص آدمی ہے؟ مہر کا پارہ چڑھ گیا اور پھنکارتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا، اس دن مہر نے سوچا کے کچھ ایسا کیا جائے کے اسکی پہچان سبکو ہو، سب اسے بھی دور سے سلام کیا کریں۔
مہر نے اگلی صبح ہوتے ہی ایک پنچائت بلائی، ساتھ میں چند مراثیوں کو بھی مدعو کر لیا، جب سب اکٹھے ہوئے تو مہر نے دھواں دار تقریر شروع کر دی، چوہدری عنایت پر دوسرے تھانے کے ایس ایچ او سے مل کر اپنے تھانے کے ایس ایچ او پر دباؤ ڈلوانے کا الزام اور مزید کئی الزامات دھر دیے، جتنے فلمی و کتابی شہہ جملے اسے یاد تھے سب کہہ ڈالے، پنچائیتی تو حیران ہو کر دیکھتے رہ گئے البتہ مراثیوں نے واہ واہ کے نعرے لگا دیے، اور دیکھتے ہی دیکھتے دور دور کے دیہاتوں تک مہر صاحب کے نام کی چرچہ ہو گئی، مہر فتح علی کا سینہ چوڑا ہو گیا، اب وہ اپنی ہر چھوٹی سے بڑی پنچائت میں مراثیوں کے لیے خوصوصاً چارپائیاں بچھواتا اور انکے کھانے کا بھی مناسب انتظام کیا جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے تمام دیہاتوں کے پنچائیتیوں نے بھی اس روایت سے فائدہ اٹھایا اور مراثیوں کو پنچائیت کا ایک لازمی جزو بنا لیا، مراثی کافی خوش تھے کے بیٹھے بٹھائے فن کی قدر بھی ہو گئی اور آمدن کا انتظام بھی۔ ہر پنچائیت میں مہر کے جملے مشہور ہوا کرتے تھے، اکثر تو پرانی پاکستانی فلموں سے چوری کئیے ڈائلاگ بول دیا کرتا تھا، اکثر لوگ تو ایسے تھے جو کیس کو جانتے بھی نہ ہوتے مگر مہر کے مصالحےدار جملے سننے پنچائیت پہنچ جایا کرتے یا پھر مراثیوں کی خصوصی محفلوں میں جایا کرتے جہاں  مراثی ان جملوں پہ مزید نمک مرچ چھڑک کر لہلہا کر پیش کیا کرتے، ایسی محفلوں کا کچھ فائدہ رشید چائے والے اور مشتاق سوڈا واٹر والے کو بھی ہو جاتا کہ مصالحے دار جملے سننے کے شوقین جب محفل میں آتے تو کوئی چائے منگواتا تو کوئی سوڈا واٹر پی کر جملوں کے مزے لیتا۔
کچھ عرصہ گزرا تو حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا، مہر فتح علی نے پنچائت چند سینئیر پنچائیتیوں کے حوالے کی اور الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا، مگر جیسے جیسے الیکشن قریب آتا گیا مہر کے پیچھے نعرے لگانے والے کم ہوتے گئے، کیونکہ جن مراثیوں کے نعروں پہ مہر صاحب خود کو مقبول عوامی نمائیندہ سمجھ بیٹھے تھے انکو تو صرف پنچائیت سے ملنے والی آمدن سے غرض تھی۔ خیر الیکشن ہو گئے اور مہر صاحب کو بُری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مہر صاحب تو دوبارہ سے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی ڈالی ہوئی روایت کی وجہ سے مراثیوں کی خوب چاندی ہو رہی ہے، ہر پنچائیتی مراثیوں کے لئیے خصوصی انتضامات کرتا ہے تاکہ دور دور کے دیہاتوں تک اسکے نام اور انصاف کے قصے مشہور ہوں اور ہر شخص دور سے سلامیاں دے پنچائیتی کو، چوہدری صاحب اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، کبھی کبھی اگر زیادہ مقبولیت ہونے لگے چوہدری صاحب کی تو ایس ایچ او اور پنچائیتی مل کر انہیں کسی کیس میں طلب کر لیتے ہیں اور مراثیوں کے نعروں سے مزہ دوبالا کر لیتے ہیں، گاؤں کے چند پرانے بابے چوہدری کی بے بسی دیکھ کر کُڑھتے ہیں، حقے کا کش لگاتے ہیں اور کہتے ہیں
چلو ساہنو کی۔۔۔۔۔

Friday 3 March 2017

غربت میں عظمت ہے

السلام علیکم 

یوں تو ہمارے کپتان صاحب کے بیانات کا چرچا رہتا ہی ہے ، مگر پچھلے چند دنوں میں انکا ایک بیان موضوع بحث بنا رہا جس میں خان صاحب نے فرمایا تھا کو وہ غربت اور سادگی کی عمدہ مثال قائم کرتے آئے ہیں، اس بیان کو پڑھتے ہی ہر وہ شخص جو خان صاحب کو جانتا بھی ہو اور خان صاحب کا مرید نہ ہو یقیناً حیران ضرور ہوا ہو گا 
مجھے یہ بیان پڑھ کر جہاں ہنسی آئی وہیں ایک پرانا قصّہ بھی یاد آ گیا، شاید کسی رسالے یہ اخبار میں پڑھا تھا، قصّہ کچھ یوں تھا 
ایک مرتبہ ایک امیر بچے کو اسکے استاد نے غربت پہ مضمون لکھنے کو کہا، بچے نے جو مضمون لکھا اسے پڑھ کر استاد چکرا گیا، مضمون کچھ یوں تھا 
عمران کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، اسکے کمرے میں سستا سا چائنہ کا اے سی لگا ہوا تھا، وہ جب صبح اٹھتا تو ناشتے میں صرف ایک گلاس تازہ جوس، صرف ایک فرائی انڈا اور چند پس بریڈ ملتے. عمران اتنا غریب تھا کہ اسکے گھر صرف دو نوکر تھے سودا سلف لانا کھانا پکانا صفائی کرنا یو سب ایک وی نوکر کو کرنا پڑتا اور دوسرا ڈرائیور تھا
ناشتہ کر کہ عمران اپنا پرانا سا بیگ اٹھاتا اور پرانے ماڈل کی گندی سی مرسڈیز میں بیٹھ کر اپنے بوڑھے سے ڈرائیور کے ساتھ شہر کی سب سی پرانے والے سٹی سکول پہنچتا 
عمران اتنا غریب تھا کہ تین مہینے پہلے خریدے ہوے جوتے ابھی تک چلا رہا تھا
.
یہ مضمون کپتان کی غربت کی حالت کا ایک سرسری سا جائزہ سمجھا جا سکتا ہے، اب اگر ہم بھی خان صاحب کے مریدوں میں سے ہوتے تو خان صاحب کی غربت اور سادگی کی قصّے یونہی بیان کرتے مگر ہم ٹھہرے جاہل ذہنی غلام، ہمیں اس شخص کی عظمت کا اندازہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے 

شکریہ

Saturday 16 July 2016

ریشمی سڑک کا سفر


السلام علیکم دوستو!
کچھ ہفتے پہلے پاکستان کے شمالی علاقوں مثلاً گلگت بلتستان کی سیر کا موقع ملا، راستے میں کچھ مشکلات آئیں کیونکہ راستے سے واقفیت نہ تھی، تو سوچا کیوں نا ایک چھوٹا سا بلاگ لکھ دیا جائے جو ان علاقوں کی سیر پہ جانے والوں کے لئیے مفید ہو۔ سفرنامہ تو نہیں کہہ سکتے اسے کیونکہ نہ تو مجھے سفر نامہ لکھنا آتا ہے اور نہ ہی ہمت ہے، البتہ ایک گائیڈ کہہ سکتے ہیں آپ اس تحریر کو۔
ہفتے کا دن تھا سفر کے لئیے ضروری خریداری مکمل کی گئی اور رات کو قریباً نو بجے ہم بارہ لوگ بشمول ڈرائیور، لائلپور سے خنجراب کے لئیے روانہ ہو گئے، راستے میں ایک جگہ چائے کے لئیے رکے اور پھر مسلسل دس گھنٹے کا سفر مکمل کر کے ہم مانسہرہ پہنچے جہاں ہم نے ناشتہ کیا، ایسے سفر میں کوشش کریں کم چکنائی والی خوراک استعمال کریں، ناشتہ کر کے ہم ایک غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے مانسہرہ کے ایک قصبے اوگی کی طرف نکل گئے اور انتہائی پُر پیچ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار روڈ سے ہوتے ہوئے تھاکوٹ کے قریب جا پہنچے، وہاں سے آگے چلے اور قریباً گیارہ بجے بشام پہنچے، وہاں سے آگے کا روڈ کچھ بہتر تھا، مگر جب دو بجے کے قریب ہم داسو پہنچے تو وہاں روڈ کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، وہاں رُک کر ہم نے کھانا کھایا، داسو میں آپکو خاص کچھ ذائقے دار کھانے کو نہیں ملے گا، اور کولڈ ڈرنکس بھی زیادہ تر جعلی۔ وہاں سے ہم نے گاڑی کا پیٹرول لیکج کا مسئلہ ٹھیک کروایا اور چلاس کے لئیے روانہ ہو گئے، داسو سے آگے تو سڑک ایسی ہے کے بیس سے تیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار آپ نہیں رکھ سکتے، کچھ گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم ثمر نالہ پہنچے وہاں پہنچ کر پورے سفر کی پہلی ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیا، چشمے کا پانی کافی تیزی سے گزرتا ہے وہاں سے اور ٹھنڈا بھی کافی ہے۔ وہاں چائے پی کر پھر سے روانہ ہو گئے اور آخر کار رات دس بجے چلاس پہنچے، یوں ہمارا پہلا سٹاپ پچیس گھنٹے کے سفر کے بعد آیا جہاں ہم نے رات گزارنی تھی، چلاس میں پندرہ سو سے پچیس سو تک مناسب کمرہ مل جاتا ہے، چلاس میں رات رک کر وہیں کھانا کھا کر سو گئے، صبح اٹھ کر خود ناشتہ بنایا کیونکہ رات کے کھانے میں ذائقے اور قیمت نے چلاس کے کھانے کا شوق پورا کر دیا تھا، روٹی تیس روپے کی اور تین پلیٹ کھیرے ٹماٹر کا سلاد تین سو روپے کا اور ساتھ میں کچے گوشت کی شوربے والی کڑاہی۔ ناشتہ کر کے ہم استور کے لئیے قریباً گیارہ بجے روانہ ہوئے، رکتے رکاتے تصویریں کھینچتے ہم ساڑھے چار بجے استور پہنچے، وہاں سے کھانے پکانے کے لئیے مرغی کا گوشت اور دیگر اشیا خریدیں اور ساڑھے پانچ بجے راما کے لئیے روانہ ہو گئے، جہاں ہم نے ہائی روف لے جانے کی غلطی کی، کیونکہ وہ جیپ یا کم از کم چھوٹی کار کا ٹریک تھا، خیر دو ایک موڑوں پر دھکا لگا کر ہم ساڑھے چھ راما میڈوز پہنچ گئے، راما میڈوز ایک نہایت ہی خوبصورت جگہ ہے، پی ٹی ڈی سی میں گئے تو پتہ چلا کہ مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں پہلی دفعہ کھلنے کی وجہ سے خاصا بدبودار بھی تھا، پریشانی بن گئی کہ کہیں استور واپس نہ جانا پڑے رات رکنے کے لئیے، ایسے میں فاریسٹ والوں کا گیسٹ ہاؤس نظر آیا اور ہم وہاں گھس گئے، وہاں ہمیں ایک ہال اور ایک کمرہ مل گیا اور قریب ہی ایک اور چھوٹے ریسٹ ہاؤس میں بھی ایک کمرہ لے لیا، کھانا پکایا اور کافی لے کر باہر ٹھنڈ کا مزہ لینے لگے، راما میں کافی ٹھنڈ ہوتی ہے، مئی کے آخری ہفتے میں بھی درجہ حرارت منفی دو تک چلا جاتا ہے۔ صبح سب کا راما لیک تک ہائیکنگ کا پروگرام تھا، مگر رات سے ہی بارش شروع ہو گئی جو صبح تک جاری رہی اور ٹریک بند ہو گیا تو مجبوراً ناشتہ کر کے راما سے واپس نکلنا پڑا، رات رکنے اور کھانا پکانے کے لئیے اشیا مہیا کرنے کے لئیے ہم نے قریباً چھ ہزار روپے دیے ریسٹ ہاوس والوں کو اور واپسی کا سفر شروع کیا، استور تک پہنچے تب بھی بارش نے پیچھا نہ چھوڑا، استور سے نکل کر ہم واپس شاہرہِ ریشم کی طرف چل پڑے، شاہرہِ ریشم پر پہنچ کر ہنزہ کی طرف رُخ کیا اور بارش نے بھی ہمارا ساتھ جاری رکھا۔ راستے میں اس جگہ رکے جہاں سے آپ تین بلند پہاڑی سلسے اکٹھے دیکھ سکتے ہیں، کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم اور کوہِ ہندو کش۔ دینور سے ہم ہنزہ کی طرف مُڑ گئے اور رکتے چائے پیتے ہم ساڑھے چھ بجے کریم آباد ہنزہ پہنچ گئے، مگر وہاں قریباً تمام ہوٹل بھرے پڑے تھے، کہیں کمرہ نہیں ملا، تب وہاں کے ایک مقامی شخص نے التت کا بتایا جو کریم آباد کے ساتھ ہی ہے وہاں ہمیں ایک مناسب ہوٹل مل گیا جہاں گرم پانی بھی دستیاب تھا، دو ہزار روپے فی کمرہ کے حساب سے ہم وہاں رک گئے، رات کو وہاں کا مقامی کھانا چپ شڑو اور برو شپک کھایا اور سو گئے، صبح اٹھ کر التت اور بلتت قلعہ دیکھا دونو کی ٹکٹ ڈھائی سو روپے فی کس تھی، ہنزہ کے خوبصورت مناظر نے جادو سا کر دیا، بلتت سے دوپہر کا کھانا کھایا، جو مناسب قیمت اور مناسب ذائقے والا تھا کیونکہ چائینیز تھا، ان علاقوں کے لوگوں کو پنجابی طرز کے کھانے پکانے نہیں آتے اس لئیے کوشش بھی مت کیجئیے گا بنوانے کی۔ کھانا کھا کر ہم ایگل نیسٹ ویو پوائینٹ کے لئیے روانہ ہوئے، جو کے خلاصتاً جیپ ٹریک تھا مگر ہم نے پھر ہائی روف لے جانے کی غلطی دہرائی۔ ایگل نیسٹ ویو پوائینٹ کی خاص بات وہاں سے تین بلند چوٹیوں بشمول راکاپوشی کا نظر آنا اور غروبِ آفتاب کے وقت برف کا لال ہو جانا ہے۔ غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ کر فارغ ہوئے تو پتہ چلا کے ہوٹل میں اکانومی کلاس کمرے فُل ہو چکے ہیں اور ایگزیکٹو کلاس کمرے بجٹ سے باہر ہیں سو ہم نے کیمپنگ کرنے کی ٹھان لی، چار ہزار میں ہمیں تین کیمپ اور لگانے کی جگہ اور بستر مل گئے، کیمپس میں سامان رکھ کر کھانا پکایا اور چائے پی کر قریب موجود ایک دکان پر شاپنگ کرنے پہنچ گئے، دوکاندار کافی بھلا آدمی تھا، پلاسٹک کے زیورات اور پتھر کے زیورات کا فرق خود بتا دیتا تھا، قیمتیں بھی مناسب تھیں، وہاں سے گھر والوں کے لئیے تحائف خرید کر کیمپوں میں جا کر سو گئے، صبح اٹھے تو بری خبر ملی کہ گاڑی کے گئیر کی تار ٹوٹ گئی ہے اور گاڑی پہلے گئیر میں پھنسی ہے، پہلے گئیر میں ہی ہم واپس نیچے اترے اور کریم آباد سے ہوتے ہو علی آباد پہنچے جہاں ہم نے ناشتہ کیا اور اتنی دیر میں گاڑی ٹھیک کروائی، وہاں سے ہم قریباً ساڑھے بارہ سست بارڈر کے لئیے روانہ ہوئے، راستے میں عطا آباد جھیل کا سحر انگیز منظر دیکھا، اب سرنگ کھول دی گئی ہے اس لئیے جھیل کے ساتھ راستہ صرف دس منٹ کا رہ گیا ہے ورنہ پہلے لوگ قریباً ایک گھنٹا جھیل میں کشتی پہ سفر کر کے آگے جاتے تھے، جھیل پہ فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم آگے روانہ ہو گئے، چار بجے سست پہنچے تو پتہ چلا کہ خنجراب نہیں جا سکتے کیونکہ چار بجے کے بعد راستہ بند کر دیا جاتا ہے، سوست میں رات رکنے کو ہوٹل ڈھونڈا جو نہایت مناسب قیمت میں مل گیا، سات ہزار میں چار کمرے لئیے اور بار بی کیو کی تیاری شروع کر دی، کھانا کھا کر صبح کا پلان فائنل کیا گیا اور پھر سب سو گئے، صبح سات بجے سب ناشتہ کر کے خنجراب جانے کو تیار تھے، گاڑی میں سامان رکھا اور قریباً ساڑھے سات بجے ہم خنجراب کے لئیے روانہ ہو گئے، راستے میں ایک دو جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے سڑک خراب تھی باقی قریباً چلاس سے خنجراب تک شاہراہِ ریشم ایک بہترین سڑک ہے، دس بجے ہم خنجراب پہنچ چکے تھے، جہاں برف ہی برف تھی اور ہوا کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے سانس بھی بہت پھولتا تھا، ایک گھنٹا وہاں رک کر فوٹوگرافی کا شوق پورا کیا گیا پھر ہم واپس روانہ ہو گئے اور گلگت پہنچ کر دم لیا، وہاں کچھ مزید شاپنگ کی گئی مگر مغرب کا وقت ہونے کی وجہ سے زیادہ تر دوکانیں بند ہو رہی تھیں، وہاں سے ہم چلاس کے لئیے آٹھ بجے روانہ ہو گئے، مگر جگلوٹ سے تھوڑا آگے جاتے ہی پولیس نے روک دیا اور واپس گلگت جانے کا کہا کیونکہ رات میں وہ راستہ بند کر دیا جاتا ہے، ہم میں گلگت جانے کی تو ہمت نہ تھی سو ہم نے جگلوٹ میں رات گزارنے کی ٹھان لی، جگلوٹ میں کھانے کی تو بہت اچھی جگہ ہمیں مل گئی، وہاں ایک ریستوران ریشم گرل کے نام سے ہے، اسکا کھانا صاف اور واقعی لذیذ ہے، مگر قریب کوئی بھی مناسب جگہ رات رکنے کو نہ ملی تب ایک شخص نے ایک ڈرائیور ہوٹل میں مچھر ذدہ کمرے دیکھائے اور ہم با دلِ نخواستہ وہاں رات رک گئے، صبح چار کمروں کا دو ہزار روپیہ دیا اور واپس روانہ ہو گئے، چلاس پہنچ کر ناشتہ کیا اور داسو تک کی ٹوٹی ہوئی سڑک اور بور راستے کے پیشِ نظر زیادہ تر لوگ گاڑی میں بیٹھتے ہی سو گئے، ڈرائیور کے اصرار پر میں نے نصرت کی قوالی لگائی تو ڈرائیور نے بھی جوش میں گاڑی خوب بھگانہ شروع کی، یوں جو سفر جاتے ہوئے چھ گھنٹے میں کیا تھا وہ واپسی پہ ساڑھے چار گھنٹے میں مکمل کر لیا گیا، داسو پہنچ کر کابلی پلاؤ نما چاول کھائے گئے، اور ہم بشام کے لئیے روانہ ہو گئے، بشام پہنچ کر چائے پی، رات رکنے کے لئیے کمرہ ڈھونڈا مگر تمام ہوٹل فُل تھے سو ہم مانسہرہ کا ارادہ باندھ کر پھر چل پڑے، مگر بٹگرام تک پہنچتے پہنچتے تھکاوٹ اتنی ہو گئی کہ وہیں رات رکنے کا سامان کیا گیا، وہاں بھی ایک ہی ہوٹل میں کمرے ملے جو خاص صاف تو نہ تھے مگر رات تو گزارنی ہی تھی، ہم نے پچیس سو میں چار کمرے لے لئیے، اور کھانا کھانے باہر نکلے، کڑاہی پکوانے کی غلطی دہرائی گئی اور پھر سے کچے گوشت کا سامنا تھا۔ میں نے شکر کیا جو پہلے ہی چاؤمن منگوا لیا تھا جو کھانے کے قابل ضرور تھا۔ ہوٹل واپسی پر آم خریدے گئے تاکہ کڑاہی کا غم غلط کیا جا سکے، آم کھا کر ہم سو گئے، صبح ناشتے کا پروگرام رات کے کھانے کے تجربے کی بنا پر چھتر پلین پہنچنے تک ملتوی کر دیا گیا، چھتر پلین پہنچ کر لذیذ ناشتہ کیا اور پھر مانسہرہ سے ہوتے ہوئے ٹیکسلا آ کر رکے اور دوپہر کا کھانا کھایا گیا، وہاں سے ہم رات قریباً گیارہ بجے واپس لائلپور پہنچ گئے، یوں ایک پُر لطف سفر اختاتم کو پہنچا۔
اگر آپ اس سفر پر جائیں تو چند باتوں کا خصوصی خیال رکھیں
۱۔ سن بلاک کریم، گرم شال وغیرہ ساتھ رکھیں
۲۔ جہاں تک ہو سکے خود کھانا پکائیں یا پھر مقامی ڈشز کھائیں، خود پکانے کے لئیے برتن اور سیلنڈر ساتھ رکھیں
۳۔ چلاس سے داسو آنا ہو تو شام تین بجے سے پہلے پہلے کے پی کے میں داخل ہو جائیں ورنہ راستہ بند کر دیا جاتا ہے
۴۔ جاتے ہوئے جو جگہ اچھی لگے ضرور رکیں، واپسی پہ مت چھوڑیں کیونکہ واپسی پر رکنا مشکل ہوتا ہے

امید ہے یہ تحریر آپکے لئیے مددگار ثابت ہو گی، پسند آئے تو کمنٹ کیجئیے گا
Twitter: @wacas

Wednesday 5 August 2015

غلط فہمی



چند برس پہلے کی بات ہے، ایک پیٹرولیم کمپنی میں نوکری کیا کرتا تھا میں، کمپنی نے دنیا بھر سے پانچ ہزار ملازمین کو ڈاؤن سائزنگ کے نام پر نکال باہر کیا، ان پانچ ہزار میں سے ایک نام میرا بھی تھا، ایک دو ماہ نوکری کی تلاش کی مگر بے سود رہی۔ ایسے میں ایک دوست کی جانب سے افغانستان میں نوکری کی پیشکش ہوئی، ایک مہینہ سوچ بچار کی کے جایا جائے یا اپنے دیس کی خاک ہی چھانی جائے، خرچے دن بہ دن بڑھ رہے تھے اور آمدن تھی ہی نہیں، جب بچت کے پیسے بھی ختم ہونے کو آئے تو آخر با دل نہ خواستہ افغانستان کے سفر کا فیصلہ کر لیا۔ ویزا ایپلائی کرنے اور افغانستان جانے کے درمیان جو چند دن تھے اس میں بہت سے لوگوں کی سنائی ہوئی باتیں اور ٹی وی کی اکثر خبریں ذہن میں گردش کرنے لگیں، وہ مولانا حضرات بھی یاد آئے جو یہ کہہ کر افغان بمقابلہ امریکہ جہاد کے لئیے چندہ اکٹھا کرتے ہوئے یہی منفی پراپوگنڈا استعمال کرتے رہے کے طالبان در اصل اسلام کے مجاہد ہیں جو ایک طرف تو یہود و نصاریٰ کی فوج سے نبرد آزما ہیں دوسری جانب شمالی اتحاد کے شعیہ لوگوں کے خلاف بھی جہاد کر رہے ہیں۔ ٹی وی کی خبروں اور لوگوں کی باتوں سے ذہن میں ایک تصویر یہ بنی کہ وہاں جاتے ہی ہر طرف جنگ کا منظر ہو گا، کہیں راکٹ لانچر تو کہیں مزائیل چل رہے ہوں گے۔ خیر دل کو مضبوط کیا اور آخر ایک دن اسلام آباد سے کابل جا پہنچا۔ کابل پہنچتے ہی ایک آدھ دن میں جو جنگ کا منظر ذہن میں تھا وہ غلط ثابت ہوا تو کچھ حوصلہ ہوا۔ افغانستان میں میرا قیام لگ بھگ دو سال رہا، سنے سنائے سارے قصوں کی تصدیق کرنا بہت اہم تھا میرے لیے اس لیے جہاں بھی بیٹھتا تو مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والوں سے سوالات کرتا رہتا، یہاں تک جو باتیں پاکستان سے میں ذہن میں بھر کر نکلا تھا کم و بیش سب ہی غلط ثابت ہوئیں، اور آج کی اس تحریر کا مقصد ان چند غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

پہلی غلط فہمی: شمالی اتحاد شعیہ مسلک کا گروہ ہے
شمالہ اتحاد میں اکثریت سنی افراد کی ہے، شمالی اتحاد طالبان کے خلاف اس وقت بنا جب طالبان اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے، شمالی اتحاد کا ایک حصہ تاجک لوگوں کا تھا جو احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں لڑ رہا تھا اور دوسرا حصہ ازبک لوگوں کا تھا جو جنرل رشید دوستم کی سربراہی میں تھا اور دونوں حصوں میں اکثریت سنیوں کی تھی۔

دوسری غلط فہمی: طالبان اسلام کے لئیے جہاد کرتے ہوئے اکٹھے ہوئے
روس کے خلاف جہاد میں سب گروہ اکٹھے تھے اور طلبان نہیں مجاہدین کے نام سے جانے جاتے تھے، طالبان نے آغاز اپنی جنگ کا اقتدار کے لئیے کیا، روس کے جانے کے بعد، سمالی اتحاد کے خلاف جنگ لڑتے رہے جب تک حکومت پر قابض نہ ہو گئے، اس جنگ میں مخالفین کی عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا طالبان نے، اور یہ گھٹیا کام دونو جانب سے کیا گیا، شمالی اتحاد نے بھی جہاں موقع ملا طالبان کے عورتوں بچوں کو قتل کیا۔

تیسری غلط فہمی:  طالبان کے دورِ حکومت سے عوام ناخوش تھی
طالبان کا قابض ہونے کا طریقہ یقیناً جابرانا اور غلط تھا مگر انکے دورِ حکومت کی تعریف انکے اکثر مخالفین بھی کرتے ہیں، عدل و انصاف تھا، چوری ڈاکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا، جہاں تک بات ہیروئن کی سمگلنگ کی ہے یہ ایک بڑی خرابی ضرور موجود تھی جسکی بنیاد سی آئی اے نے ڈالی روس مخالف جنگ کے لئیے کیش فلو وافر رکھنے واسطے۔

چوتھی غلط فہمی: افغانستان میں تمام دھماکوں اور اغوا برائے تاوان کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے
طالبان امریکہ مخالف جنگ میں بہت سی کاروائیاں کرتے ہیں مگر ایسی تمام واقعات کی ذمے داری صرف طالبان پر نہیں ڈالی جا سکتی، تیس فیصد واقعات ایسے چھوٹے گروہ کرواتے ہیں جو طالبان کے نام کی بنی ہوئی دہشت کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اکثر اٹھاتے بھی ہیں۔

پانچویں غلط فہمی: افغانستان میں ہر وقت جنگ جاری ہے
افغانستان میں گوریلا وار چل رہی ہے مگر ہر وقت ہر جگہ جنگ نہیں ہو رہی، عمومی طور پر بڑے شہروں میں لوگ پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

 یہ تھیں وہ چند غلط فہمیاں جو افغانستان پہنچنے سے پہلے میرے ذہن میں تھیں اور بعد میں دور ہوئیں۔ یہ میرا وہ ناقص علم تھا جو میں نے دو سال افغانستان گزارنے اور اسکے سولہ صوبے گھومنے کے بعد حاصل کیا۔ ابھی بہت سی باتیں اس لئیے چھوڑے جا رہا ہوں کہ ایک بے فائدہ بحث کو جنم دیں گی اور شاید کچھ لوگوں کے جذبات بھی مجروح ہو جائیں۔ 
اپنی رائے سے نوازیے گا 
ولسلام

Thursday 30 July 2015

ایک لمبی ٹویٹ

آئی الیون کی کچی آبادی مسمار کر دی گئی بہت سے دوست اسکی مخالفت کرتے نظر آ رہے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر احباب ضربِ عضب کے حمایتی ہیں جبکے مجھے ان دونوں آپریشنز میں تھوڑا ہی فرق نظر آتا ہے آئی الیون کی کچی آباد کے ہمسائے یعنی آئی ٹین میں پانچ سال گزارے ہیں میں نے یہ آبادی نشے کی فروخت، مفرور ملزمان و مجرمان کو پناہ دینے، چوری چکاری کے لیے کافی مشہور جگہ تھی، یہاں آباد ہوئے لوگ یہاں کے ہمیشہ سے رہائشی نہیں تھے بلکے بعد میں آ کر قابض ہوئے تھے سی ڈی اے کی جانب سے جن سرکاری ملازمین کو یہ پلاٹ الاٹ ہوئے تھے ان میں سے نوے فیصد کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے، اکثر تو اسی آس پہ دنیا سے کوچ کر گئے کہ شاید ہم نہیں تو ہمارے بچے ہی کبھی اپنا گھر بنا سکیں گے اکثر لوگ ٹوٹے گھروں، زخمی لوگوں اور چیختی عورتوں کی تصاویر دکھا کر آپریشن کو ناجائز قرار دینے میں مصروف ہیں تو سوال سادہ سا ہے کہ کیا ضربِ عضب میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہو گا؟ کیا وہاں مزائل نشانے سے پوچھ کر پھٹتے رہے کہ کیا وہ طالب ہے یا انسان؟ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر ریاست کا حق ہے کہ وہ ایسے آپریشن کرے کیا آپ میں سے کوئی کسی چور کو اپنے لان میں گھر بنانے دے گا؟ محض اس لیے کے وہ دِکھنے میں غریب نظر آتا ہے؟ یا اپنی کسی بھی زمین پہ نشہ فروخت کرنے والوں کو بسائے گا؟ کیوں کہ اس کے ساتھ عورتیں اور بچے ہیں؟ کچھ حقیقت پسندی سے سوچیے صاحب! یہ وہ ناسور تھا جو دن بہ دن بڑھ رہا تھا اور اسکا صفایا ہی اسکا واحد حل تھا ریاست کی رٹ قائم ہونے دیجیے یہ آپ کے لیے ہی فائدہ مند ہے جن ممالک کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے وہاں کبھی کسی کو غیر قانونی گھر بناتے دیکھا کیا آپ نے وہی لوگ جو وفاقی دارالحکومت میں موجود کچی آبادیوں پہ ناک بھوں چڑھاتے تھے آج اس آپریشن سے نالاں نظر آتے ہیں کچھ کی تو مجبوری ہے کے حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا انکا فرض ہے، اسد عمر صاحب اس حلقے کے ایم این اے ہیں، ایک دفعہ ایمان داری سے بتا دیں کہ جس بستی کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اس بستی کا دورہ کتنی بار کیا؟ آخر آپکا حلقہ ہے جناب. جتنا میرا علم تھا اس بستی کے بارے اور جو میری رائے تھی دونوں بیان کر دیے اختلاف کا حق بہرحال آپکا ہے رائے ضرور دیجئے گا Twitter : @wacas Email : gheratjagao@gmail.com