Thursday 11 December 2014

تین تولے سونا !!



السلام علئیکم دوستو!

چند ہفتے پہلے کچھ نئے دوستوں سے ملاقات ہوئی، تعارف ہوا تو کچھ ابہام بھی دور ہوئے- ان میں سے ایک دوست عمران صاحب تھے. ایک دن چاۓ پیتے ہوئے ایک بات سنائی جو دل میں اتر گئی۔ آپکو اُن کی بات انہی کی زبانی سناتا ہوں۔


میں نے انیس سو بانوے میں نوکری شروع کی تو پہلی تنخواہ تین ہزار مقرر ہوئی، مہنگائی بہت کم ہوا کرتی تھی اس لئیے اکثر تین ہزار میں سے بھی پیسے بچ جایا کرتے تھے، تین چار سال بعد بہن کی شادی ہوئی تو تنخواہ نو ہزار ہو چکی تھی، ایک تنخواہ بہن کے لئیے سونا خریدنے پر صرف کر دی، ایک تنخواہ میں تین تولے سونا آ سکا. وقت گزرتا گیا، نوکریاں تبدیل ہوتی رہیں یوں میں نے بیس سال مختلف نوکریاں کرتے گزار دیے، بیس سال بعد جب میں نوکریوں سے تھک گیا تو اپنے کاروبار کی سوچی، الله نے اس میں بھی کامیابی عطا کی. چند روز پہلے میری والدہ نے پوچھا کہ عمران تم نے جب اپنی بہن کو زیور بنا کر دیا تب کتنی تنخواہ تھی، میں نے جواب دیا کہ میری تنخواہ اس وقت نو ہزار تھی، تو والدہ نے کہا کہ تب تم نے کتنے تولے سونا لیا تھا تو میں نے بتایا کہ تین تولے، والدہ نے پھر سوال کیا کہ جب تم نے نوکری چھوڑی تب تمہاری کتنی تنخواہ تھی تو میں نے جواب دیا قریباً ڈیڑھ لاکھ، والدہ نے پوچھا کہ اور اب ڈیڑھ لاکھ میں کتنے تولے سونا آ جاتا ہے؟ جواب تو میں نے دے دیا کہ تین تولے مگر میں خود سوچ میں ڈوب گیا کہ بیس سال پہلے تین تولے سونے سے آغاز کیا، بیس سال محنت کی اور اختتام بھی تین تولے سونے پر ہی ہوا۔


عمران صاحب کی یہ کہانی سن کر میں گھر چلا آیا مگر ایک بات میرے ذہن کو کریدتی رہی کہ ہمارے ملک نے  پچھلے بیس سالوں میں کتنی ترقی کی؟ بیس سال جس شخص نے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا اس ملک کی خدمت میں وہ تو آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور ملک ترقی کے زینے چڑھنے کی بجایے اترتا چلا گیا۔ امید کرتے ہیں کہ کبھی اس ملک کو ایسے رہنما بھی ملیں گے جن کی رہنمائی میں ملک بھی ترقی کرے گا اور اس ملک کے شہری بیس سال محنت کرنے کے بعد وہیں کے وہیں نہیں کھڑے ہوں گے بلکہ خود بھی ترقی کریں گے اور ملک کی ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں گے۔


موجودہ حکمران پاکستان کی ترقی کے لئیے کوشاں تو نظر آتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ یہ کوششیں رنگ لاتی ہیں یا ہمیشہ کی طرح یہ حکومت بھی فساد پسند عناصر کی نظر ہو جاتی ہے۔


دعاؤں میں یاد رکھئیے گا، کوئی غلطی ہو تو معاف کرتے ہوئے نشان دہی کر دیجئیے گا تاکہ تصحیح ممکن ہو سکے۔


وقاص احمد
ٹویٹر:
@WaCaS
ای میل:
gheratjagao@gmail.com

Friday 4 July 2014

بندر یا انسان



نہ ہمیں پچاس ہزار پاکستانیوں کا قتل متحد کر سکتا ہے نہ ہی اُن معصوموں کے قاتلوں خلاف کیا جانے والا آپریشن۔ ہم بندر ہیں سیاستدانوں کی ڈگڈی پہ ناچنے والے بندر، ہمارے سیاسی لیڈر جیسے چاہتے ہیں ہمیں نچاتے ہیں، کوئی کینیڈا سے بیٹھ کے اپنے پاکستانی گھر کی حفاظت کے لئیے ہماری قربانی لیتا ہے تو کوئی لندن میں بیٹھ کر اپنے گرفتار ہونے پہ ہم سے ہماری ہی گاڑیاں جلواتا ہے، کوئی بنی گالا کے محل میں بیٹھ کر ہمارے پیسے سے بنے ہوئے ہسپتال کو ہمارے اوپر حکمرانی کے لئیے کیش کروانا چاہتا ہے اور اپنی سیاست کی غلازت ہماری زبانوں پہ ایسی رواں کرتا ہے کہ ہم اپنے بھائی باپ یا دوست کو سیاسی اختلاف کی بنا پر گالیاں دینے سے نہیں کتراتے ۔تو کوئی رائےونڈ کی سلطنت میں بیٹھا پہلے ہمارے ہاتھوں ہماری گاڑیوں کے شیشے تڑواتا ہے اور بعد میں ہمیں ہی جیل میں بھی ڈلواتا ہے۔ کوئی کالاباغ ڈیم کے نقصانات ِگنوا کر اپنے مخالفین کے مضبوط ہونے کا راستہ ہمارے زرئیے روکتا ہے۔ کوئی ہمیں سندھ فیسٹیول کے ناچ گانوں میں لگا کر ہمارے بچوں کو تھر میں بھوکا مرنے کے لئیے چھوڑ دیتا ہے۔ اور ان سب میں سے جسکا جب دل چاہے پورے ملک میں ہم سے فسادات کرواتا ہے اور اُن فسادات میں ہمارا سامان ہمارے ہاتھوں ہی جلواتا ہے۔ 

غرض یہ کہ سب سیاسی مداری ہمیں گروہوں میں بانٹ کر خوب اچھے طریقے سے نچاتے ہیں اور یہاں کہانی ختم نہیں ہوتی یہ سب تو سیاسی مداری تھے ِان سے بھی زیادہ ماہر تو وردی والے مداری ہیں جو ہم سے دن سلیوٹ بھی لگواتے ہیں، ہم سے فوج کی شان میں قصیدے بھی پڑھواتے ہیں، اپنے مفاد کے لئیے ہمارے ذہنوں میں اپنی مرضی کی رائے بھی گھساتے ہیں اگر کوئی انکار کرے تو ہمارے ہی منہ سے اُسے غدّار کا تمغہ بھی دلواتے ہیں، ہم پر فاسفورس بم بھی برساتے ہیں اور ڈالروں کے عوض ہماری بہن بیٹیوں کو امریکا کے ہاتھ بیچتے بھی ہیں۔ ہمارے قومی لیڈر قائدِاعظم کی بہن کو ہمارے زباں سے ہی غدّار کہلواتے ہیں۔ ملک کو دو لخت کر کہ بھی سب سے بڑے محبّ ِوطن بنتے ہیں۔ اور ہم جتنا بھی انکے حق میں نعرے لگا لیں، جتنی بھی ان سے محبت جتا لیں رہیں گے ہم اِن کی نظر میں وہی بلڈی سولین۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ جتنی محبت ہمیں اپنے اِن مداریوں سے ہے اور جتنی مہنت ہم اِنکو خوش رکھنے کے لئیے کرتے ہیں اگر اس سے آدھی بھی ہم اللہ کی طرف موڑ لیں تو ہم بندر نہیں رہیں گے اور اِس زندگی کے بعد جو نہ ختم ہونے والی زندگی ہے وہاں عزّت ہمارا مقدّر ہو گی۔ اپنی تمام تر طاقتوں کو اپنے سیاسی یا باوردی مداریوں سے ہٹا کر اللہ کی راہ میں لگا کر دیکھئیے، اس دنیا میں بھی سکون ملے گا اور اگلی دنیا کا سکون تو لازمی ہے، کیونکہ اسکا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے اور بے شک اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

کوئی غلطی کوتاہی ہوئی ہو تو معاف کیجئیے گا۔ املاح کی غلطیوں کی ضرور نشاندہی کیجئیے گا تاکے میں انہیں درست کر سکوں۔


Twitter: @Wacas
Email: gheratjagao@gmail.com
 

Saturday 21 June 2014

عزت



السلامُ علئیکم دوستو!
آج کی تحریر خواتین کو ڈیڈیکیٹڈ ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی عزت کرنے کا ڈھونگ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں مگر حقیقت تھوڑی مختلف ہے۔ در اصل ہم صرف اُس عورت کی عزت کرتے ہیں جو یا ہماراے خاندان کی ہو یا ہمارے فرقے کی ہو یا کم از کم جس سے ھماری سیاسی وابستگی ہو۔ اگر کوئی عورت اُزبک ہو اور حاملہ ہو اور ہماری فوج اُسے نہتّہ ہونے کے باوجود گولیوں سے چھلنی کر دے تو ہم شور نہیں مچائیں گے، اگر کوئی عورت کسی مولوی نے مدرسّے میں محصور کر رکھی ہو اور ہماری فوج اُسے فاسفورس بم سے اُڑا دے تب بھی ہم فوج کی حوصلہ افضائی کریں گے، ہاں البتّہ وہ عورت ایک ایسے شخص کے گھر سے ناجائز تجاوزات ہٹانے والی پولیس سے جھڑپ میں ماری جائے جو خود کینیڈا میں بیٹھا ہو اور عورتوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہو تو ہم آسمان سر پر ضرور اُٹھائیں گے۔ خود بازار میں پھرنے والی ہر لڑکی کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے لیکن اگر کوئی مخالف سیاسی پارٹی کا سپورٹر ہماری پارٹی کی خواتیں کے بارے میں ایسی بات کرے گا تو اُسے گھٹیا سوچ کا طعنہ دے کر اُس کے خلاف نعرے لگائیں گے، ہم خود مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کے ساتھ دست درازی کریں گے مگر اپنی پارٹی کی خواتین کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سُنیں گے۔ خود مخالفین کی بہن بیٹی پہ دن رات کیچڑ اُچھالیں گے مگر اپنی خواتین کو کوئی دیکھے تو اُس کی آنکھیں نکال لیں گے۔ اِن تمام اصولوں کی روشنی میں ہمیں خروٹ آباد، لال مسجد اور ہر روز کراچی میں مرنے والی خواتین پر کوئی افسوس نہیں، ہم صرف اُن خواتین کی موت پر افسردہ ہیں جن کی لعشوں پر ہم سیاست کر سکیں۔ ہم خواتین کی بہت عزت کرتے ہیں اور ایسے ہی ہمیشہ کرتے رہیں گے۔


Twitter: @wacas