Monday 12 May 2014

بھولی عوام



السلام علئیکم!
آج ۱۲ مئی ہے، سب لوگ کل کے گزرے ہؤے جلسے پہ بحث میں مصروف ہیں، کوئی جلسے کے بہت بڑے اور سودمند ہونے کی گواہی دینے کی کوشش میں ہے تو کوئی جلسے کے مختصر حُجم اور ناکام ہونے کے ثبوت لئیے خوشی منا رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ذہن میں ایک بات اُبھری کہ یہ عوام کتنی بھولی بھالی ہے، اِس عوام کے بھولےپن کا فائدہ بہت سے لوگوں نے اِسے بیوقوف بنا کر اُٹھایا۔ کبھی اِس عوام کو بیوقوف بنا کر اِسی سے اِسکی ماں (مادرِ ملّت فاطمہ جناح) کو غدّار کہلوایا تو کبھی اِسی عوام کے بنگالی بھائیوں سے ملنے پہ ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی، کبھی راشن کارڈ دے کر ذلیل کروایہ تو کبھی یہ کہہ کر ریفرنڈم کروایا (تم اسلامی نظام کہ ساتھ ہو یا اُسکے خلاف)، کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا جھوٹا لالچ دے کر ووٹ ڈلوایا تو کبھی اِسی عوام کو وہاں سے نشانہ بنوایہ جہاں سے اِنھیں پتہ بھی نہ چلے، کبھی اِسی عوام کے ہاتھوں اِسی عوام کا قتلِ عام کروایا تو کبھی ایک لیڈر کے مرنے پہ اِسی عوام کے ہاتھوں اسکے اپنے املاک کو جلوایا۔ لیکن یہ عوام اِس قدر بھولی ہے کہ آج بھی اِس عوام کو اُنھیں لوگوں سے اُمیدیں ہیں جو آج تک اِسے بیوقوف بناتے آئے ہیں۔ کل کے جلسے میں عوام کی شرکت اِسی بھولےپن کا ثبوت ہے، یہ عوام توآپکی سیاسی ڈرامے بازیوں میں یہ بھی بھول چکی ہے کہ کِس طرح آج ہی کی تاریخ ۱۲مئی کو کچھ سال پہلے اِسی عوام کو بیوقوف بنا کر اِسی کے ہاتھوں کراچی میں اِسی عوام کا قتلِ عام کروایا گیا تھا۔ آج کی یہ تحریر اُنھیں بیگناہ لوگوں کے نام ہے جو اِس بلّی چوہے کے کھیل میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اللہ اُن سب کو جنّت نصیب فرمائے ۔ آمین یا ربّلعلمین۔
Twitter: @wacas
Email: gheratjagao@gmail.com

Friday 9 May 2014

میرے ملک کا وقار



السلام علئیکم قارئین!
آج میں آپکو اپنی ایک کہانی سناتا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا، حسب معمول اکثر گھر پہ جب کوئی مہمان آتا تو مجھ سے پوچھا کرتا تھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے اور میں جھٹ سے جواب دیتا تھا کہ فوجی بنوں گا، دشمن کہ فوجیوں کو ماروں گا۔ ۲۳ مارچ کی پریڈ دیکھنا پورے سال کا سب سے دلچسپ موقعہ ہوتا تھا۔ لبّ لباب یہ کہ فوج کی جتنی عذت تھی دل میں شاید اپنے اساتذہ کی بھی نہ ہو۔ سکول ختم ہوا کالج میں قدم رکھا تو کچھ عرصہ میں ہی جنرل مشرف نے مارشل لأ لگا دیا، شروع میں تو کم عقلی کہ باعث سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ اچھا ہوا یا بُرا لیکن جیسے جیسے عقل کہ در وا ہؤے تو سمجھ آئی کہ ملک کہ ساتھ کیا ذیادتی ہو رہی ہے۔ جب کالج ختم ہونے کو تھا تو ابّا جان نے پوچھا کے فوج میں جانے کی تیاری ہے نہ؟ میں نے جواب دیا کہ میرا فوج سے کسی قسم کا کوئی لگاؤ نہیں رہا۔ میرے دل میں فوج کی جو عذت تھی وہ مشرف نے معدوم کر دی، وقت گزرتا گیا اور جرنیلوں کا جھوٹا وقار آشکار ہوتا گیا، کیانی صاحب کا دور آیا تو کچھ امّید بندھی مگر صلالہ چیکپوسٹ پر امریکی حملے کا واقعہ پیش آگیا جس کہ جواب میں کیانی صاحب نے نیٹو سپلائی رکوا دی، کچھ مہینے گزرے نیٹو سپلائی بحال ہو گئی اور ساتھ ہی امریکہ نے تابڑ توڑ ڈرون اٹیک کئیے جس میں چند مبئینہ دھشتگرد جب کہ بیشمار معصوم لوگ شہید ہو گئے نظریں ایک بار پھر کیانی صاحب کی طرف اُٹھیں کہ شاید اب بھی کوئی سپلائی بندش کا فیصلہ سامنے آئے مگر کیوںکہ اِس مرتبہ مرنے والے بیفاعدہ سولین تھے تو سپلائی بندش ضروری نہیں سمجھی گئی۔
اِن واقعات اور اِن جیسے سینکڑوں واقعات جن کا اگر ذکر کیا جائے تو ۵۰۰ صفحات کی کتاب با آسانی مرتّب کی جا سکتی ہے ایوب کا فاطمہ جناح کو غدّار ثابت کرنا، جنرل یحئیٰ کا ۷۱ کی جنگ کا کارنامہ، ضیاؑ کے بیشمار کارنامے جس میں ایم قیو ایم کا قیام، ڈالروں کے لئے طالبان کا قیام، مشرف کا ڈالروں کے لئیے امریکہ کو اڈّوں کا فراہم کرنا، اپنے ملک کے بیشمار لوگوں کو امریکہ کے ھاتھ فروخت کرنا اور ایسے بیشمار واقعات ہیں جن سے فوج کی عذت مجھ جیسوں کے دل میں کم ہو گئی مگر ہماری فوج ابھی بھی اِن واقعات پر فخر کرتی ہے اور اُن کی نظر میں فوج کا وقار صرف کسی جنرل کو اُسکے جرم کی سزا دینے سے ہی مجروح ہوتا ہے۔
یہاں ایک بات کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ فوج جو سرحدوں کی حفاظت میں مصروف ہے اُس سے ہمیں ضرور پیار ہے مگر اِن جرنیلوں سے نہیں جواِس ملک کو اپنی جاگیر اور تمام سولیئنز کو اپنی رعایہ سمجھتے ہیں۔
فوجوں کا وقار ملک کی حفاظت کر کے بلند ہوتا ہے ملک پر حکومت کر کے نہیں۔

اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئیے گا
 @wacas :twitter