Tuesday 14 April 2015

گلگت بلتستان


السلام علئیکم قارئین کرام
آج اقوام متحدہ میں حوثی باغیوں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی، اسی طرح بیشمار قراردادیں پیش بھی ہوتی رہیں منظور بھی ہوتی رہیں مگر عملدرآمد شاز و نادر ہی کبھی دیکھنے میں آیا. اگرچہ کے ان قراردادوں پر عملدرآمد صرف تبھی ہوتا ہے جب قرارداد کسی کمزور کے خلاف ہو، جب قرارداد کسی طاقتور کے خلاف ہو تو بس ریکارڈ کی فائلیں بھرتی ہے، مگر پھر بھی حفظ ما تقدم کے لیے ممالک پہلے سے اس سے بچ نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں.
اسرائیل کی مثال لے لیں جو فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری اس طرح سے کر رہا کے کل کلاں کوئی رائے شماری ہو بھی تو کوئی علاقہ بھی مسلم اکثریت کا نہ رہ جائے. بھارت بھی آج کل اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری میں مصروف ہے.
پاکستان اس صورتحال سے شاید کچھ پہلے ہی آگاہ تھا اس لیے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ شمار کرتا ہے تاکہ اگر کبھی رائے شماری ہو تو اکثریت کا ووٹ پاکستان کے حق میں ہو اور یوں کشمیر پاکستان کا حصہ بن سکے. اس پالیسی کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث پھر کبھی، مگر اس کے نقصانات گلگت بلتستان کے محب وطن شہریوں کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، اس پالیسی کی بنا پہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ طور پر صوبے کا درجہ نہیں دے سکتے جس کی وجہ سے فنڈز کی منصفانہ تقسیم بھی آسان نہیں.
گلگت بلتستان کے لوگوں سے اگر کبھی آپ ملے ہوں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ یہ لوگ انتہائی محب وطن، پر امن اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں، گلگت بلتستان میں شرع خواندگی اٹھانوے فیصد ہے، مگر یہ لوگ اب حکومت پاکستان کے اس رویے سے تنگ آ چکے ہیں. ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر، آئین نہ ہونے کے برابر ہے، بس چند نکات پہ مشتمل ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے جس پر کٹھ پتلی قسم کی ایک حکومت قائم ہے. فنڈز کا اجراء کروانا بھی جس کے لیے ناممکن ہی نظر آتا ہے اکثر. پاکستان کا آئین ابھی تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو باقاعدہ پاکستانی شہری بھی تسلیم نہیں کرتا.  ایسے میں ان لوگوں سے یہ امید رکھنا کے یہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے، ایک حماقت ہے.

اگر آپ ان محب وطن پاکستانیوں کی محبت کا خون نہیں کرنا چاہتے تو ان کو بھی ترقی کے مواقع فراہم کریں، انہیں بھی پاکستانی کہلوانے کا حق دیں، ایگزیکٹو آرڈر کی جگہ ایک آئین ترتیب دیں جو انکی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ترقی کا ضامن ہو. جن سے آپ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کے کل کو کشمیر آپکی جھولی میں ڈال دیں گے انکو اتنا مت دبائیں کے کل کو جب کوئی رائے شماری ہو تو یہ آپ کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں. انکے نام پر سیاست پچھلے دور میں بھی ہوتی رہی اب بھی ہو رہی ہے. مگر ترقیاتی منصوبوں کی کوئی رمق نظر آنا شروع ہوئی ہے تو اسے اپنی گھٹیا سیاست کے بھینٹ مت چڑھائیں.
اس امید کے ساتھ موضوعِ زیرِ بحث سمیٹتا ہوں کے میاں صاحب جو وعدے آج گلگت بلتستان سے کر کے آئے ہیں ان پر عمل بھی ہو گا اور یہ خوبصورت خطہ جو پاکستان کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے ترقی کی نئی منازل طے کر ے گا.
اپنی رایے سے ضرور آگاہ کیجئے گا
                                                           
Twitter : @wacas             
Email: gheratjagao@gmail.com