Tuesday 11 February 2014

ہماری ترجیحات

السلام علیکم دوستو،

دنیا میں ہمیشہ سے چار قسم کے لوگ نظر آتے ہیں، ایک وہ جو مذہب پر پوری ترہا عمل پیرا ہوتے ہیں اور اپنے معبود کے ہر حکم کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، دوسرے وہ جو زیادہ تر ماحول کے ساتھ اپنی سوچ بدلتے رہتے ہیں، اگر مذھبی ماحول میں بیٹھے ہوں تو مذہبی بات کریں گے، اور اگر کسی شیطانی ماحول میں بیٹھ جائیں تو وہاں بھی اپنا پورا حصّہ ڈالیں گے، تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو جہاں بھی ہوں ہمیشہ مذہبی باتوں اور احکامات کے خلاف بات کریں گے، مذہب میں اور مذہبی لوگوں میں برایاں تلاش کریں گے، چوتھی اور آخری قسم ان لوگوں کی ہے جو مذہب میں خود سے سختیاں بڑھا کر ایک نیا مذہب بنا کر بیٹھ جائیں گے اور خود کو سب سے افضل اور باقیوں کو عدنا سمجھیں گے. پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہے نظر آتا ہے. یہاں کچھ تو ایسے مسلمان ہیں جو خود کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں اور باقی سب کو کافر یہاں تک اپنی ناقص عقل کہ تحت جسے وہ کافر کہ دیں اسے جان سے مار دینے کو ثواب سمجھتے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جو پہلی قسم والوں کی مخالفت میں ان لوگوں کو غلط کہنے کی بجایے اسلام کو ہی غلط کہنا شروع کر دیتے ہیں. اس مسلے کی بنیادی وجہ ترجیحات میں غلطی ہے. جب ہم ذیلی گروہ کو بالائی گروہ پر ترجیح دینے لگتے ہیں تو غلط سمت چل پڑتے ہیں. الله پاک نے ہمیں سب سے پہلے انسان بنایا ہے پھر ہم پر نوازش کی اور ہمیں مسلمان بنایا پھر اپنی رحمتوں کے خزانے میں سے ہمیں پاکستان عطا کیا. تو ہماری پہلی ترجیح انسان ہونا اور دوسروں کو انسان سمجھنا ہونی چاہئیے اور دوسری مسلمان ہونا اور دوسرے مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور الله کے احکامات پر عمل کرنا ہونی چاہئیے، یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ انسان بننے اور دوسروں کو انسان سمجھنے میں بھی ہم الله ک احکامات کو ہی پورا کرتے ہیں الله ہمیں تمام حقوق العباد پورے کرنے کا حکم دیتا ہے جب ہم الله کہ اس حکم کو پورا کریں گے تو خود بخود پہلی ترجیح پوری ہو جایے گی. تیسری ترجیح ہماری اپنے پیارے وطن سے محبّت اور اس وطن کہ ہم پر جو حقوق ہیں انکو پورا کرنا ہے. لیکن ہم انتہا پسندی میں یا تو دائیں جانب اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کو انسان سمجھتے ہیں اور وہ بھی صرف ان مسلمانوں کو جو ہمارے خود ساختہ معیار پر پورا اتریں باقی تمام انسانوں کو ہم ان عدنا جانوروں جیسا تصور کرتے ہیں جنھیں جب چاہا جہاں چاہا قتل کر دیا. یا پھر ہم انتہا پسندی میں بائیں جانب اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ انسانیت کے ان اصولوں کو سب سے اہم قرار دے دیتے ہیں جو انتہائی غیر انسانی اور غیر مہزب معاشرے نے واضح کیے ہیں، ہم اللہ کے احکامات کے خلاف بنایے جانے والے شر پسند ہتھکنڈوں کے استمال سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنے مذہب کو سب سے کم فوقیت دیتے ہوے اسلام سے جڑے ہر حکم اور خود اسلام کو برا بھلا کہنے کو جدت پسندی کا نام دے کر اپنا لیتے ہیں. پچھلے کچھ روز سے طالبان کی جانب سے شریعت کے نفاذ کے مطالبے پر مختلف لوگوں کی ریے دیکھنے میں آئ. اگر ہم لفظی مطلب پر جائیں تو مطالبہ بہت جائز ہے مگر مثلا یہ ہے کہ جس شریعت پی طالبان خود عمل پیرا ہیں اسکا اطلاق تو ناممکن اور بہت سے علما کے نزدیک غلط بھی ہے. لیکن اس مطالبے کو بنیاد بنا کر بائیں بازو کی طاقتیں اصل شریعت  محمدی(صلی اللہ علیہ وسلم)کا مذاق بھی اڑا رہی ہیں اور پوری قوم کو اس رایے پر بھی لانا چاہتی ہیں کہ شریعت کبھی بھی کسی بھی صورت میں نافذ نہیں ہونی چاہئیے. دیکھئے جس خالق حقیقی نے ہمیں انسان بنایا ، ہمیں مسلمان بنایا اور ہمیں پاکستان دیا اگر ہم اس کے احکامات کا مذاق اڑائیں اور انکے نفاز کے مخالف ہوں تو ہمارا انسان ہونا اور مسلمان ہونا قطعی بیکار ہے. الله کے احکامات کے نفاز سے ہم میں سے بوہت سوں کو مشکلات  ضرور آئیں گی لیکن اس عارضی زندگی میں چند مشکلات کو جھیلنے سے ہی ہم اپنی دوسری اور ابدی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں . یہاں ایک حدیث پاک کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں : "دنیا مومن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنّت ہے " . اب آپ لوگوں نے خود ہی حساب لگانا ہے کے آپکو جنّت یہاں چاہئیے یا ابدی اور نہ ختم ہونے والی زندگی میں. میں کوئی عالم نہیں ہوں اور نہ ہی یہاں جنّت جہنّم کا فتویٰ دے رہا ہوں، میرا مقصد فقط آپکو اتنا یاد دلانا ہے کہ ہمیں جو زندگی یہاں ملی ہے وہ اپنے خالق حقیقی کو خوش کرنے میں صرف کریں نہ کے اس خالق حقیقی کے منکرین کو خوش کرنے میں. باقی الله سب سے بہتر جاننے والا ہے. اگر کسی کو میری کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت. یہ میرے خیالات تھے جن سے میں نے آپکو آگاہ کرنے کی کوشش کی اپپ لوگ میری اس رایے سے اختلاف کا پورا حق رکھتے ہیں. 

اپنی رایے سے ضرور آگاہ کیجئے گا 
وقاص احمد 
ٹویٹر : 
@wacas
 ای میل :
gheratjagao@gmail.com

 

Saturday 8 February 2014

ہمیں کوئی حق نہیں

کچھ روز پہلے میرے دفتر میں ایک صفائی والا آیا اور اپنی ایک دکھ  داستان سنا ڈالی. اسکے گھر کو کچھ روز پہلے آگ لگ گئی تھی جس کی لپیٹ میں آ کر اس کی بیوی اور دو بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. اب اسکے پاس نہ رہنے کو گھر ہے اور نہ ہی گھر والے . کمپنی نے اسکی کچھ مدد تو کی لیکن اس قلیل امداد سے ایک گھر بنانا ناممکن ہے. تب میرے  ذہن میں خیال آیا کہ سوشل میڈیا پہ دوستوں سے کہا جایے اور ہو سکے تو کچھ امداد اکٹھی کر کے اس غریب کو دے دی جایے، ایک پیغام ترتیب دیا اور سوشل میڈیا کی ٢ سائٹس ٹویٹر اور فیس بک پر ڈال دیا گیا ، بیشمار لوگوں نے اسے آگے پہنچایا کئی ریٹویٹس ہوئیں اور مجھے امید نظر آئ کہ اب کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا، دیں گذرتے چلے گیے شیئرز اور ریٹویٹس بڑھتی چلی گئیں لیکن کہیں سے بھی کسی نے بھی اس غریب کی امداد نہ کی . تب مجھے اس سوشل میڈیا پے چلائی جانے والی اکثر کمپینز کا خیال آیا. کبھی کوئی خون کا عطیہ مانگتا ہے تو کبھی صرف دعا کا طلبگار ہوتا ہے، کیا ان ساری کمپینز کا حال بھی اسی ترھا ہوتا ہے؟ کہ ہر پڑھنے والا صرف ان پیغامات کو آگے پہنچانے کا کام ہی کرتا ہے؟ کیا صرف ان پیغامات کو آگے پہنچا کر ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے؟ کیا ہم اس قدر بےحس ہو چکے ہیں کہ اپنی کمائی میں سے چند سو روپے نہیں نکال سکتے ؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم سوشل میڈیا پے ایسے غریبوں کی تصویریں شیر کریں اور لوگوں سے داد وصول کریں کہ ہمارے دل میں انسانیت کا بہت درد ہے. ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم حکومت یا کسی شخصیت یا کسی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنائیں. جب ہم خود اس قدر بے حس ہیں تو دوسروں پی تنقید کا ہمیں کوئی حق نہیں.

اگر میری باتیں آپکو کڑوی لگی ہوں تو میں معذرت خوا ہوں مگر حقیقت تو کچھ یونہی ہے اور حقیقت اکثر کڑوی ہی ہوا کرتی ہے . اپنی رایے سے ضرور آگاہ کیجئے گا .

وقاص  احمد
Twitter:
@WaCaS
E-mail:
gheratjagao@gmail.com