Wednesday 5 August 2015

غلط فہمی



چند برس پہلے کی بات ہے، ایک پیٹرولیم کمپنی میں نوکری کیا کرتا تھا میں، کمپنی نے دنیا بھر سے پانچ ہزار ملازمین کو ڈاؤن سائزنگ کے نام پر نکال باہر کیا، ان پانچ ہزار میں سے ایک نام میرا بھی تھا، ایک دو ماہ نوکری کی تلاش کی مگر بے سود رہی۔ ایسے میں ایک دوست کی جانب سے افغانستان میں نوکری کی پیشکش ہوئی، ایک مہینہ سوچ بچار کی کے جایا جائے یا اپنے دیس کی خاک ہی چھانی جائے، خرچے دن بہ دن بڑھ رہے تھے اور آمدن تھی ہی نہیں، جب بچت کے پیسے بھی ختم ہونے کو آئے تو آخر با دل نہ خواستہ افغانستان کے سفر کا فیصلہ کر لیا۔ ویزا ایپلائی کرنے اور افغانستان جانے کے درمیان جو چند دن تھے اس میں بہت سے لوگوں کی سنائی ہوئی باتیں اور ٹی وی کی اکثر خبریں ذہن میں گردش کرنے لگیں، وہ مولانا حضرات بھی یاد آئے جو یہ کہہ کر افغان بمقابلہ امریکہ جہاد کے لئیے چندہ اکٹھا کرتے ہوئے یہی منفی پراپوگنڈا استعمال کرتے رہے کے طالبان در اصل اسلام کے مجاہد ہیں جو ایک طرف تو یہود و نصاریٰ کی فوج سے نبرد آزما ہیں دوسری جانب شمالی اتحاد کے شعیہ لوگوں کے خلاف بھی جہاد کر رہے ہیں۔ ٹی وی کی خبروں اور لوگوں کی باتوں سے ذہن میں ایک تصویر یہ بنی کہ وہاں جاتے ہی ہر طرف جنگ کا منظر ہو گا، کہیں راکٹ لانچر تو کہیں مزائیل چل رہے ہوں گے۔ خیر دل کو مضبوط کیا اور آخر ایک دن اسلام آباد سے کابل جا پہنچا۔ کابل پہنچتے ہی ایک آدھ دن میں جو جنگ کا منظر ذہن میں تھا وہ غلط ثابت ہوا تو کچھ حوصلہ ہوا۔ افغانستان میں میرا قیام لگ بھگ دو سال رہا، سنے سنائے سارے قصوں کی تصدیق کرنا بہت اہم تھا میرے لیے اس لیے جہاں بھی بیٹھتا تو مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والوں سے سوالات کرتا رہتا، یہاں تک جو باتیں پاکستان سے میں ذہن میں بھر کر نکلا تھا کم و بیش سب ہی غلط ثابت ہوئیں، اور آج کی اس تحریر کا مقصد ان چند غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

پہلی غلط فہمی: شمالی اتحاد شعیہ مسلک کا گروہ ہے
شمالہ اتحاد میں اکثریت سنی افراد کی ہے، شمالی اتحاد طالبان کے خلاف اس وقت بنا جب طالبان اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے، شمالی اتحاد کا ایک حصہ تاجک لوگوں کا تھا جو احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں لڑ رہا تھا اور دوسرا حصہ ازبک لوگوں کا تھا جو جنرل رشید دوستم کی سربراہی میں تھا اور دونوں حصوں میں اکثریت سنیوں کی تھی۔

دوسری غلط فہمی: طالبان اسلام کے لئیے جہاد کرتے ہوئے اکٹھے ہوئے
روس کے خلاف جہاد میں سب گروہ اکٹھے تھے اور طلبان نہیں مجاہدین کے نام سے جانے جاتے تھے، طالبان نے آغاز اپنی جنگ کا اقتدار کے لئیے کیا، روس کے جانے کے بعد، سمالی اتحاد کے خلاف جنگ لڑتے رہے جب تک حکومت پر قابض نہ ہو گئے، اس جنگ میں مخالفین کی عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا طالبان نے، اور یہ گھٹیا کام دونو جانب سے کیا گیا، شمالی اتحاد نے بھی جہاں موقع ملا طالبان کے عورتوں بچوں کو قتل کیا۔

تیسری غلط فہمی:  طالبان کے دورِ حکومت سے عوام ناخوش تھی
طالبان کا قابض ہونے کا طریقہ یقیناً جابرانا اور غلط تھا مگر انکے دورِ حکومت کی تعریف انکے اکثر مخالفین بھی کرتے ہیں، عدل و انصاف تھا، چوری ڈاکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا، جہاں تک بات ہیروئن کی سمگلنگ کی ہے یہ ایک بڑی خرابی ضرور موجود تھی جسکی بنیاد سی آئی اے نے ڈالی روس مخالف جنگ کے لئیے کیش فلو وافر رکھنے واسطے۔

چوتھی غلط فہمی: افغانستان میں تمام دھماکوں اور اغوا برائے تاوان کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے
طالبان امریکہ مخالف جنگ میں بہت سی کاروائیاں کرتے ہیں مگر ایسی تمام واقعات کی ذمے داری صرف طالبان پر نہیں ڈالی جا سکتی، تیس فیصد واقعات ایسے چھوٹے گروہ کرواتے ہیں جو طالبان کے نام کی بنی ہوئی دہشت کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اکثر اٹھاتے بھی ہیں۔

پانچویں غلط فہمی: افغانستان میں ہر وقت جنگ جاری ہے
افغانستان میں گوریلا وار چل رہی ہے مگر ہر وقت ہر جگہ جنگ نہیں ہو رہی، عمومی طور پر بڑے شہروں میں لوگ پُرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

 یہ تھیں وہ چند غلط فہمیاں جو افغانستان پہنچنے سے پہلے میرے ذہن میں تھیں اور بعد میں دور ہوئیں۔ یہ میرا وہ ناقص علم تھا جو میں نے دو سال افغانستان گزارنے اور اسکے سولہ صوبے گھومنے کے بعد حاصل کیا۔ ابھی بہت سی باتیں اس لئیے چھوڑے جا رہا ہوں کہ ایک بے فائدہ بحث کو جنم دیں گی اور شاید کچھ لوگوں کے جذبات بھی مجروح ہو جائیں۔ 
اپنی رائے سے نوازیے گا 
ولسلام

Thursday 30 July 2015

ایک لمبی ٹویٹ

آئی الیون کی کچی آبادی مسمار کر دی گئی بہت سے دوست اسکی مخالفت کرتے نظر آ رہے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر احباب ضربِ عضب کے حمایتی ہیں جبکے مجھے ان دونوں آپریشنز میں تھوڑا ہی فرق نظر آتا ہے آئی الیون کی کچی آباد کے ہمسائے یعنی آئی ٹین میں پانچ سال گزارے ہیں میں نے یہ آبادی نشے کی فروخت، مفرور ملزمان و مجرمان کو پناہ دینے، چوری چکاری کے لیے کافی مشہور جگہ تھی، یہاں آباد ہوئے لوگ یہاں کے ہمیشہ سے رہائشی نہیں تھے بلکے بعد میں آ کر قابض ہوئے تھے سی ڈی اے کی جانب سے جن سرکاری ملازمین کو یہ پلاٹ الاٹ ہوئے تھے ان میں سے نوے فیصد کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے، اکثر تو اسی آس پہ دنیا سے کوچ کر گئے کہ شاید ہم نہیں تو ہمارے بچے ہی کبھی اپنا گھر بنا سکیں گے اکثر لوگ ٹوٹے گھروں، زخمی لوگوں اور چیختی عورتوں کی تصاویر دکھا کر آپریشن کو ناجائز قرار دینے میں مصروف ہیں تو سوال سادہ سا ہے کہ کیا ضربِ عضب میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہو گا؟ کیا وہاں مزائل نشانے سے پوچھ کر پھٹتے رہے کہ کیا وہ طالب ہے یا انسان؟ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے پر ریاست کا حق ہے کہ وہ ایسے آپریشن کرے کیا آپ میں سے کوئی کسی چور کو اپنے لان میں گھر بنانے دے گا؟ محض اس لیے کے وہ دِکھنے میں غریب نظر آتا ہے؟ یا اپنی کسی بھی زمین پہ نشہ فروخت کرنے والوں کو بسائے گا؟ کیوں کہ اس کے ساتھ عورتیں اور بچے ہیں؟ کچھ حقیقت پسندی سے سوچیے صاحب! یہ وہ ناسور تھا جو دن بہ دن بڑھ رہا تھا اور اسکا صفایا ہی اسکا واحد حل تھا ریاست کی رٹ قائم ہونے دیجیے یہ آپ کے لیے ہی فائدہ مند ہے جن ممالک کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے وہاں کبھی کسی کو غیر قانونی گھر بناتے دیکھا کیا آپ نے وہی لوگ جو وفاقی دارالحکومت میں موجود کچی آبادیوں پہ ناک بھوں چڑھاتے تھے آج اس آپریشن سے نالاں نظر آتے ہیں کچھ کی تو مجبوری ہے کے حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا انکا فرض ہے، اسد عمر صاحب اس حلقے کے ایم این اے ہیں، ایک دفعہ ایمان داری سے بتا دیں کہ جس بستی کے لیے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں اس بستی کا دورہ کتنی بار کیا؟ آخر آپکا حلقہ ہے جناب. جتنا میرا علم تھا اس بستی کے بارے اور جو میری رائے تھی دونوں بیان کر دیے اختلاف کا حق بہرحال آپکا ہے رائے ضرور دیجئے گا Twitter : @wacas Email : gheratjagao@gmail.com

Thursday 11 June 2015

ڈریکٹ حوالدار



السلام علئیکم معزز قارئین!
چھے سال پہلے پاکستان کی کرکٹ کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی تھی، لاہور میں لبرٹی مارکیٹ کے قریب ان پر حملہ کیا گیا، جس میں مہمان ٹیم کو بچانے میں ایک ڈرائیور اور پنجاب پولیس نے اہم کردار ادا کیا، پاکستان کا نام پوری دنیا میں بدنام ہوا، بینالاقوامی کرکٹ ختم ہو گئی، حکومت اور پی سی بی کی مشترکہ کوششوں سے چھے سال بعد آخر کار کرکٹ کی واپسی ممکن ہوئی اور زمبابوے کی ٹیم دورے کے لیے آمادہ ہو گئی. ایسے میں سب سے اہم کام مہمان ٹیم کی حفاظت تھا، پنجاب پولیس نے یہ ذمےداری بخوبی نبھائی، مہمان ٹیم بخیر و عافیت دورہ مکمل کر کے واپس چلی گئی، اس دورے کی پر امن تکمیل کا فایدہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا جب مزید ٹیمیں پاکستان کا رخ کریں گی، لیکن میڈیا پر پولیس کے اس کارنامے کا ذکر تک نہ ملا، پنجاب پولیس زیادہ تر خبروں میں تبھی جگہ بنا پاتی ہے جب کوئی غلطی کرتی ہے، ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پولیس کی ایسی تصویر پینٹ کرتا ہے کہ عام آدمی پولیس کے پاس اپنے جائز معملات بھی لیجانے سے ڈرتا ہے، پچھلے دنوں کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ ہوا، کسی ذاتی معاملے کے لیے ایف ای آر کا درج ہونا ضروری تھا، اور جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ عام آدمی پولیس سے گھبراتا ہے، میں بھی پریشان تھا، ایک دو دوستوں سے رابطہ کیا کہ کہیں سے کوئی سفارش مل جائے تو تھانے کا رخ کیا جائے مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا، تین چار روز ادھر ادھر ٹکریں مارنے کے بعد چار و ناچار خود ہی تھانے جانا پڑا، دفتر سے اپنے اسسٹنٹ کو ساتھ لیا تاکے واپسی پہ زخمی ہونے کی صورت میں کوئی مجھے اٹھا کر گھر تک پہنچانے والا تو ہو، میں اور میرا اسسٹنٹ تھانے میں داخل ہوئے، سیکورٹی پہ مامور ایک پولیس والے سے محرر کے کمرے کا پتہ دریافت کیا اور ڈرتے ڈرتے محرر کے کمرے میں پہنچ گئے، ذھن میں محرر کا نقشہ جو بنایا ہوا تھا چھن سے ٹوٹ گیا، میرا خیال تھا کہ ایک صاحب بڑی سی توند والے، دھوتی اور بنیان میں ملبوس بیٹھے ہوں گے، یہ وہ نقشہ تھا جو میڈیا نے میرے دماغ میں بنایا تھا، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں ایک دیہی علاقے کے تھانے میں گیا تھا، خیر جب سامنے دیکھا تو ایک نوجوان نہایت مناسب جسامت والا، یونیفارم پہنے بیٹھا تھا، مجھے دیکھتے ہی اس نے آنے کی وجہ دریافت کی، میں ابھی لب کشائی کرنے ہی والا تھا تو وہ بہت عزت سے بولا کہ جناب بیٹھ کر تسلی سے مدّعا بیان کریں، ساتھ ہی اپنے کسی ماتحت کو بلا کر پانی لانے کا کہا، شاید وہ میری گھبراہٹ بھانپ گیا تھا، خیر قصہ مختصر کرتا ہوں، میں نے اپنا مسلہ بیان کیا، اس نے پرچہ کاٹا اور اسکی کاپی میرے حوالے کر دی، میں نے شکریہ ادا کیا اور دوستوں کی جانب سے دئیے گئے مشورے کو ذھن میں رکھتے ہوۓ اسے کہا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے گا، وہ مسکرا کر بولا کہ آپ کا کام ہو گیا ہے اب آپ بےفکر ہو کر جائیں، میں واپس دفتر آ گیا۔
 میں اس حقیقت کو ہر گز جھٹلا نہیں سکتا کہ اور بہت سے شعبوں کی طرح پولیس میں بھی اچھے اور برے دونو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا نے پولیس کو اس قدر بدنام کر رکھا ہے کہ آم عادمی یہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ پولیس صرف کرپٹ لوگوں سے بھری ہے، جہاں پولیس میں برے عناصر ہیں وہاں بہت سے اچھے لوگ بھی موجود ہیں، خاص طور پر پنجاب پولیس کا ذکر اس لئیے کر رہا ہوں کہ میں خود پنجاب میں رہتا ہوں، پنجاب پولیس کے اچھے اور محنتی جوانوں کی دن رات خدمت کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں جرائم کی شرح باقی صوبوں سے بہت کم ہے، پولیس کے جوان ہی ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی کے سب سے کم واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں، یہ لوگ سینہ سپر ہو کر ناکہ بندیوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور ہم لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں، ایسے میں چند برے واقعات کو نمایاں کر کے پیش کرنا اور پولیس کی اچھی کارکردگی پہ چپ سادھ لینے سے پولیس کے ان جوانوں کا حوصلہ کم ہوتا ہے، ہمیں چاہئیے کہ پولیس کی اچھی کارکردگی بھی اسی طرح  بیان کریں جیسے ہم بری کاردگی پہ شور برپا کرتے ہیں۔
ایک چھوٹے سے واقعے نے میری سوچ کا رخ تھوڑا سا تبدیل کیا تو سوچا آپ لوگوں سے بھی شئیر کیا جائے۔ اپنی رائے سے آگاہ کیجئیے گا۔ آپکے قیمتی وقت کا شکریہ، ولسلام
Twitter: @wacas

Tuesday 14 April 2015

گلگت بلتستان


السلام علئیکم قارئین کرام
آج اقوام متحدہ میں حوثی باغیوں کے خلاف قرارداد منظور کی گئی، اسی طرح بیشمار قراردادیں پیش بھی ہوتی رہیں منظور بھی ہوتی رہیں مگر عملدرآمد شاز و نادر ہی کبھی دیکھنے میں آیا. اگرچہ کے ان قراردادوں پر عملدرآمد صرف تبھی ہوتا ہے جب قرارداد کسی کمزور کے خلاف ہو، جب قرارداد کسی طاقتور کے خلاف ہو تو بس ریکارڈ کی فائلیں بھرتی ہے، مگر پھر بھی حفظ ما تقدم کے لیے ممالک پہلے سے اس سے بچ نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں.
اسرائیل کی مثال لے لیں جو فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری اس طرح سے کر رہا کے کل کلاں کوئی رائے شماری ہو بھی تو کوئی علاقہ بھی مسلم اکثریت کا نہ رہ جائے. بھارت بھی آج کل اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری میں مصروف ہے.
پاکستان اس صورتحال سے شاید کچھ پہلے ہی آگاہ تھا اس لیے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ شمار کرتا ہے تاکہ اگر کبھی رائے شماری ہو تو اکثریت کا ووٹ پاکستان کے حق میں ہو اور یوں کشمیر پاکستان کا حصہ بن سکے. اس پالیسی کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث پھر کبھی، مگر اس کے نقصانات گلگت بلتستان کے محب وطن شہریوں کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، اس پالیسی کی بنا پہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ طور پر صوبے کا درجہ نہیں دے سکتے جس کی وجہ سے فنڈز کی منصفانہ تقسیم بھی آسان نہیں.
گلگت بلتستان کے لوگوں سے اگر کبھی آپ ملے ہوں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ یہ لوگ انتہائی محب وطن، پر امن اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں، گلگت بلتستان میں شرع خواندگی اٹھانوے فیصد ہے، مگر یہ لوگ اب حکومت پاکستان کے اس رویے سے تنگ آ چکے ہیں. ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر، آئین نہ ہونے کے برابر ہے، بس چند نکات پہ مشتمل ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے جس پر کٹھ پتلی قسم کی ایک حکومت قائم ہے. فنڈز کا اجراء کروانا بھی جس کے لیے ناممکن ہی نظر آتا ہے اکثر. پاکستان کا آئین ابھی تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو باقاعدہ پاکستانی شہری بھی تسلیم نہیں کرتا.  ایسے میں ان لوگوں سے یہ امید رکھنا کے یہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں گے، ایک حماقت ہے.

اگر آپ ان محب وطن پاکستانیوں کی محبت کا خون نہیں کرنا چاہتے تو ان کو بھی ترقی کے مواقع فراہم کریں، انہیں بھی پاکستانی کہلوانے کا حق دیں، ایگزیکٹو آرڈر کی جگہ ایک آئین ترتیب دیں جو انکی معاشی، معاشرتی اور سیاسی ترقی کا ضامن ہو. جن سے آپ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کے کل کو کشمیر آپکی جھولی میں ڈال دیں گے انکو اتنا مت دبائیں کے کل کو جب کوئی رائے شماری ہو تو یہ آپ کے خلاف ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں. انکے نام پر سیاست پچھلے دور میں بھی ہوتی رہی اب بھی ہو رہی ہے. مگر ترقیاتی منصوبوں کی کوئی رمق نظر آنا شروع ہوئی ہے تو اسے اپنی گھٹیا سیاست کے بھینٹ مت چڑھائیں.
اس امید کے ساتھ موضوعِ زیرِ بحث سمیٹتا ہوں کے میاں صاحب جو وعدے آج گلگت بلتستان سے کر کے آئے ہیں ان پر عمل بھی ہو گا اور یہ خوبصورت خطہ جو پاکستان کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے ترقی کی نئی منازل طے کر ے گا.
اپنی رایے سے ضرور آگاہ کیجئے گا
                                                           
Twitter : @wacas             
Email: gheratjagao@gmail.com

Friday 30 January 2015

تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو!



السلام علئیکم دوستو!
کچھ عرصہ پہلے ایک کالم پڑھا، نہایت ہی محترم صحافی نے تیل کی گرتی ہوئی قیمت کا جائیزہ لیا اور کالم تحریر کر دیا، موصوف نے لکھا کی ایک بیرل میں ایک سو ساتھ لٹر تیل ہوتا ہے، جس حساب سے ایک لٹر تیل سینتیس روپے کا ہونا چاہئیے، اور حکومت اب بھی لگ بھگ اسی روپے لٹر تیل بیچ رہی ہے، کالم پڑھتے پڑھتے ہنسی آ گئی، کیونکہ موصوف یہ بھول گئے کے سینتیس روپے قیمت خام تیل کی ہے، پٹرول کی نہیں، خیر انکا مقصد حکومت پر تنقید تھا سو انہوں نے کر ڈالی۔
پچھلے ایک برس میں حکومت پیٹرول کی قیمت کو ایک سو دس روپے فی لیٹر سے اٹھتر روپے فی لیٹر تک لے آئی ہے، اور اگلے ایک دو روز میں مزید دس روپے کم کرنے کا سوچ رہی ہے، مگر چند تنقید برائے تسکینِ انا کے شوقین افراد ابھی بھی اس حکومتی اقدام کو حکومتی مجبوری گرداننے میں مصروف نظر آتے ہیں. تیل کی قیمت کا عالمی منڈی اور پاکستان میں گرنا اس میں کیا تعلق ہے آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک بیرل خام تیل کی قیمت سن دو ہزار میں پچیس سو تیس روپے تھی جو سن دو ہزار ایک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حادثے پر پندرہ سو روپے فی بیرل رہ گئی اس کے بر عکس پاکستان میں فی لٹر پیٹرول چالیس روپے سے بڑھ کر سینتالیس روپے فی لٹر ہو گیا، تیل کی عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر پاکستان میں صرف چڑھاؤ ہی دیکھنے میں آیا قیمت کو اترتے دیکھنے کی حسرت ہی رہی، حکومت بدلی ڈکٹیٹر صاحب گئے اور پاکستان میں ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہوا، مگر تیل کی قیمتوں کو شاید جمہوریت پسند نہ آئی اس لئیے عالمی منڈی اور پاکستان دونو جگہ تیل کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کئیے اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو احسن طریقے سے اختیارات منتقل کر دئیے، اِس حکومت کو بھی سابقہ حکومت کی طرح لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی اور مہنگائی جیسے امتحانات کا سامنا کرنا پڑا، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی پہ بات یہاں لمبی ہو جائے گی سو اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں جو تھا تیل کی قیمت، دو ہزار چوداہ کے اوائل میں خام تیل کی فی بیرل قیمت تھی دس ہزار ایک سو روپے، اور پاکستان میں فی لٹر پیٹرول کی قیمت ایک سو دس روپے تھی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گرنا شروع ہوئی تو حکومت نے اسکے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے واسطے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا، جو آج سے پہلے کبھی دیکھنے میں کم ہی آیا ہو گا، پچھلے ماہ جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کم ہو کر ساڑھے پانچ ہزار روپے فی بیرل پر آئی تو پاکستان میں پیٹرول کی قیمت کم ہو کر اٹھتر روپے فی لٹر پر آ گئی، اب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت لگ بھگ ساڑھے چار ہزار روپے فی بیرل پر آ گئی ہے اور حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں دس روپے فی لیٹر کمی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس سے پاکستان دنیا میں سستا ترین پیٹرول بیچنے میں پچیسویں نمبر پر آ گیا ہے۔ اس گرتی ہوئی پیٹرول کی قیمت سے مہنگائی میں مزید کمی ہو گی۔ جیسے مثال کے طور پر فیصل آباد سے لاہور کے بس کرائے میں قریباً پینتیس فیصد کمی ہو چکی ہے، اسی طرح چاول کی قیمت میں پچیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ بات تو سچ ہے کے حکومت نے تیل کی قیمت میں کمی عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت کو دیکھ کر کی مگر اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چُرائی جا سکتیں کے عالمی منڈی میں تیل پہلے بھی بہت مرتبہ سستا ہوا مگر اسکا فائدہ عوام تک پہلی مرتبہ پہنچ رہا ہے۔ تو ایسے میں ہمیں حکومت پر بے جا تنقید نہیں کرنی چاہئیے اور اس حکومتی اقدام کو سراہنا چاہئیے، تنقید ہی کرنا مقصود ہے تو اور کسی موضوع پر کر لیجئیے۔
آپکی قیمتی رائے کا انتظار رہے گا، وقت دینے کا شکریہ، اللہ حافظ

ٹویٹر:
@wacas
ای۔میل:  
gheratjagao@gmail.com