Saturday 16 July 2016

ریشمی سڑک کا سفر


السلام علیکم دوستو!
کچھ ہفتے پہلے پاکستان کے شمالی علاقوں مثلاً گلگت بلتستان کی سیر کا موقع ملا، راستے میں کچھ مشکلات آئیں کیونکہ راستے سے واقفیت نہ تھی، تو سوچا کیوں نا ایک چھوٹا سا بلاگ لکھ دیا جائے جو ان علاقوں کی سیر پہ جانے والوں کے لئیے مفید ہو۔ سفرنامہ تو نہیں کہہ سکتے اسے کیونکہ نہ تو مجھے سفر نامہ لکھنا آتا ہے اور نہ ہی ہمت ہے، البتہ ایک گائیڈ کہہ سکتے ہیں آپ اس تحریر کو۔
ہفتے کا دن تھا سفر کے لئیے ضروری خریداری مکمل کی گئی اور رات کو قریباً نو بجے ہم بارہ لوگ بشمول ڈرائیور، لائلپور سے خنجراب کے لئیے روانہ ہو گئے، راستے میں ایک جگہ چائے کے لئیے رکے اور پھر مسلسل دس گھنٹے کا سفر مکمل کر کے ہم مانسہرہ پہنچے جہاں ہم نے ناشتہ کیا، ایسے سفر میں کوشش کریں کم چکنائی والی خوراک استعمال کریں، ناشتہ کر کے ہم ایک غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے مانسہرہ کے ایک قصبے اوگی کی طرف نکل گئے اور انتہائی پُر پیچ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار روڈ سے ہوتے ہوئے تھاکوٹ کے قریب جا پہنچے، وہاں سے آگے چلے اور قریباً گیارہ بجے بشام پہنچے، وہاں سے آگے کا روڈ کچھ بہتر تھا، مگر جب دو بجے کے قریب ہم داسو پہنچے تو وہاں روڈ کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، وہاں رُک کر ہم نے کھانا کھایا، داسو میں آپکو خاص کچھ ذائقے دار کھانے کو نہیں ملے گا، اور کولڈ ڈرنکس بھی زیادہ تر جعلی۔ وہاں سے ہم نے گاڑی کا پیٹرول لیکج کا مسئلہ ٹھیک کروایا اور چلاس کے لئیے روانہ ہو گئے، داسو سے آگے تو سڑک ایسی ہے کے بیس سے تیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار آپ نہیں رکھ سکتے، کچھ گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم ثمر نالہ پہنچے وہاں پہنچ کر پورے سفر کی پہلی ٹھنڈی ہوا کا مزہ لیا، چشمے کا پانی کافی تیزی سے گزرتا ہے وہاں سے اور ٹھنڈا بھی کافی ہے۔ وہاں چائے پی کر پھر سے روانہ ہو گئے اور آخر کار رات دس بجے چلاس پہنچے، یوں ہمارا پہلا سٹاپ پچیس گھنٹے کے سفر کے بعد آیا جہاں ہم نے رات گزارنی تھی، چلاس میں پندرہ سو سے پچیس سو تک مناسب کمرہ مل جاتا ہے، چلاس میں رات رک کر وہیں کھانا کھا کر سو گئے، صبح اٹھ کر خود ناشتہ بنایا کیونکہ رات کے کھانے میں ذائقے اور قیمت نے چلاس کے کھانے کا شوق پورا کر دیا تھا، روٹی تیس روپے کی اور تین پلیٹ کھیرے ٹماٹر کا سلاد تین سو روپے کا اور ساتھ میں کچے گوشت کی شوربے والی کڑاہی۔ ناشتہ کر کے ہم استور کے لئیے قریباً گیارہ بجے روانہ ہوئے، رکتے رکاتے تصویریں کھینچتے ہم ساڑھے چار بجے استور پہنچے، وہاں سے کھانے پکانے کے لئیے مرغی کا گوشت اور دیگر اشیا خریدیں اور ساڑھے پانچ بجے راما کے لئیے روانہ ہو گئے، جہاں ہم نے ہائی روف لے جانے کی غلطی کی، کیونکہ وہ جیپ یا کم از کم چھوٹی کار کا ٹریک تھا، خیر دو ایک موڑوں پر دھکا لگا کر ہم ساڑھے چھ راما میڈوز پہنچ گئے، راما میڈوز ایک نہایت ہی خوبصورت جگہ ہے، پی ٹی ڈی سی میں گئے تو پتہ چلا کہ مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں پہلی دفعہ کھلنے کی وجہ سے خاصا بدبودار بھی تھا، پریشانی بن گئی کہ کہیں استور واپس نہ جانا پڑے رات رکنے کے لئیے، ایسے میں فاریسٹ والوں کا گیسٹ ہاؤس نظر آیا اور ہم وہاں گھس گئے، وہاں ہمیں ایک ہال اور ایک کمرہ مل گیا اور قریب ہی ایک اور چھوٹے ریسٹ ہاؤس میں بھی ایک کمرہ لے لیا، کھانا پکایا اور کافی لے کر باہر ٹھنڈ کا مزہ لینے لگے، راما میں کافی ٹھنڈ ہوتی ہے، مئی کے آخری ہفتے میں بھی درجہ حرارت منفی دو تک چلا جاتا ہے۔ صبح سب کا راما لیک تک ہائیکنگ کا پروگرام تھا، مگر رات سے ہی بارش شروع ہو گئی جو صبح تک جاری رہی اور ٹریک بند ہو گیا تو مجبوراً ناشتہ کر کے راما سے واپس نکلنا پڑا، رات رکنے اور کھانا پکانے کے لئیے اشیا مہیا کرنے کے لئیے ہم نے قریباً چھ ہزار روپے دیے ریسٹ ہاوس والوں کو اور واپسی کا سفر شروع کیا، استور تک پہنچے تب بھی بارش نے پیچھا نہ چھوڑا، استور سے نکل کر ہم واپس شاہرہِ ریشم کی طرف چل پڑے، شاہرہِ ریشم پر پہنچ کر ہنزہ کی طرف رُخ کیا اور بارش نے بھی ہمارا ساتھ جاری رکھا۔ راستے میں اس جگہ رکے جہاں سے آپ تین بلند پہاڑی سلسے اکٹھے دیکھ سکتے ہیں، کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم اور کوہِ ہندو کش۔ دینور سے ہم ہنزہ کی طرف مُڑ گئے اور رکتے چائے پیتے ہم ساڑھے چھ بجے کریم آباد ہنزہ پہنچ گئے، مگر وہاں قریباً تمام ہوٹل بھرے پڑے تھے، کہیں کمرہ نہیں ملا، تب وہاں کے ایک مقامی شخص نے التت کا بتایا جو کریم آباد کے ساتھ ہی ہے وہاں ہمیں ایک مناسب ہوٹل مل گیا جہاں گرم پانی بھی دستیاب تھا، دو ہزار روپے فی کمرہ کے حساب سے ہم وہاں رک گئے، رات کو وہاں کا مقامی کھانا چپ شڑو اور برو شپک کھایا اور سو گئے، صبح اٹھ کر التت اور بلتت قلعہ دیکھا دونو کی ٹکٹ ڈھائی سو روپے فی کس تھی، ہنزہ کے خوبصورت مناظر نے جادو سا کر دیا، بلتت سے دوپہر کا کھانا کھایا، جو مناسب قیمت اور مناسب ذائقے والا تھا کیونکہ چائینیز تھا، ان علاقوں کے لوگوں کو پنجابی طرز کے کھانے پکانے نہیں آتے اس لئیے کوشش بھی مت کیجئیے گا بنوانے کی۔ کھانا کھا کر ہم ایگل نیسٹ ویو پوائینٹ کے لئیے روانہ ہوئے، جو کے خلاصتاً جیپ ٹریک تھا مگر ہم نے پھر ہائی روف لے جانے کی غلطی دہرائی۔ ایگل نیسٹ ویو پوائینٹ کی خاص بات وہاں سے تین بلند چوٹیوں بشمول راکاپوشی کا نظر آنا اور غروبِ آفتاب کے وقت برف کا لال ہو جانا ہے۔ غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ کر فارغ ہوئے تو پتہ چلا کے ہوٹل میں اکانومی کلاس کمرے فُل ہو چکے ہیں اور ایگزیکٹو کلاس کمرے بجٹ سے باہر ہیں سو ہم نے کیمپنگ کرنے کی ٹھان لی، چار ہزار میں ہمیں تین کیمپ اور لگانے کی جگہ اور بستر مل گئے، کیمپس میں سامان رکھ کر کھانا پکایا اور چائے پی کر قریب موجود ایک دکان پر شاپنگ کرنے پہنچ گئے، دوکاندار کافی بھلا آدمی تھا، پلاسٹک کے زیورات اور پتھر کے زیورات کا فرق خود بتا دیتا تھا، قیمتیں بھی مناسب تھیں، وہاں سے گھر والوں کے لئیے تحائف خرید کر کیمپوں میں جا کر سو گئے، صبح اٹھے تو بری خبر ملی کہ گاڑی کے گئیر کی تار ٹوٹ گئی ہے اور گاڑی پہلے گئیر میں پھنسی ہے، پہلے گئیر میں ہی ہم واپس نیچے اترے اور کریم آباد سے ہوتے ہو علی آباد پہنچے جہاں ہم نے ناشتہ کیا اور اتنی دیر میں گاڑی ٹھیک کروائی، وہاں سے ہم قریباً ساڑھے بارہ سست بارڈر کے لئیے روانہ ہوئے، راستے میں عطا آباد جھیل کا سحر انگیز منظر دیکھا، اب سرنگ کھول دی گئی ہے اس لئیے جھیل کے ساتھ راستہ صرف دس منٹ کا رہ گیا ہے ورنہ پہلے لوگ قریباً ایک گھنٹا جھیل میں کشتی پہ سفر کر کے آگے جاتے تھے، جھیل پہ فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم آگے روانہ ہو گئے، چار بجے سست پہنچے تو پتہ چلا کہ خنجراب نہیں جا سکتے کیونکہ چار بجے کے بعد راستہ بند کر دیا جاتا ہے، سوست میں رات رکنے کو ہوٹل ڈھونڈا جو نہایت مناسب قیمت میں مل گیا، سات ہزار میں چار کمرے لئیے اور بار بی کیو کی تیاری شروع کر دی، کھانا کھا کر صبح کا پلان فائنل کیا گیا اور پھر سب سو گئے، صبح سات بجے سب ناشتہ کر کے خنجراب جانے کو تیار تھے، گاڑی میں سامان رکھا اور قریباً ساڑھے سات بجے ہم خنجراب کے لئیے روانہ ہو گئے، راستے میں ایک دو جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے سڑک خراب تھی باقی قریباً چلاس سے خنجراب تک شاہراہِ ریشم ایک بہترین سڑک ہے، دس بجے ہم خنجراب پہنچ چکے تھے، جہاں برف ہی برف تھی اور ہوا کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے سانس بھی بہت پھولتا تھا، ایک گھنٹا وہاں رک کر فوٹوگرافی کا شوق پورا کیا گیا پھر ہم واپس روانہ ہو گئے اور گلگت پہنچ کر دم لیا، وہاں کچھ مزید شاپنگ کی گئی مگر مغرب کا وقت ہونے کی وجہ سے زیادہ تر دوکانیں بند ہو رہی تھیں، وہاں سے ہم چلاس کے لئیے آٹھ بجے روانہ ہو گئے، مگر جگلوٹ سے تھوڑا آگے جاتے ہی پولیس نے روک دیا اور واپس گلگت جانے کا کہا کیونکہ رات میں وہ راستہ بند کر دیا جاتا ہے، ہم میں گلگت جانے کی تو ہمت نہ تھی سو ہم نے جگلوٹ میں رات گزارنے کی ٹھان لی، جگلوٹ میں کھانے کی تو بہت اچھی جگہ ہمیں مل گئی، وہاں ایک ریستوران ریشم گرل کے نام سے ہے، اسکا کھانا صاف اور واقعی لذیذ ہے، مگر قریب کوئی بھی مناسب جگہ رات رکنے کو نہ ملی تب ایک شخص نے ایک ڈرائیور ہوٹل میں مچھر ذدہ کمرے دیکھائے اور ہم با دلِ نخواستہ وہاں رات رک گئے، صبح چار کمروں کا دو ہزار روپیہ دیا اور واپس روانہ ہو گئے، چلاس پہنچ کر ناشتہ کیا اور داسو تک کی ٹوٹی ہوئی سڑک اور بور راستے کے پیشِ نظر زیادہ تر لوگ گاڑی میں بیٹھتے ہی سو گئے، ڈرائیور کے اصرار پر میں نے نصرت کی قوالی لگائی تو ڈرائیور نے بھی جوش میں گاڑی خوب بھگانہ شروع کی، یوں جو سفر جاتے ہوئے چھ گھنٹے میں کیا تھا وہ واپسی پہ ساڑھے چار گھنٹے میں مکمل کر لیا گیا، داسو پہنچ کر کابلی پلاؤ نما چاول کھائے گئے، اور ہم بشام کے لئیے روانہ ہو گئے، بشام پہنچ کر چائے پی، رات رکنے کے لئیے کمرہ ڈھونڈا مگر تمام ہوٹل فُل تھے سو ہم مانسہرہ کا ارادہ باندھ کر پھر چل پڑے، مگر بٹگرام تک پہنچتے پہنچتے تھکاوٹ اتنی ہو گئی کہ وہیں رات رکنے کا سامان کیا گیا، وہاں بھی ایک ہی ہوٹل میں کمرے ملے جو خاص صاف تو نہ تھے مگر رات تو گزارنی ہی تھی، ہم نے پچیس سو میں چار کمرے لے لئیے، اور کھانا کھانے باہر نکلے، کڑاہی پکوانے کی غلطی دہرائی گئی اور پھر سے کچے گوشت کا سامنا تھا۔ میں نے شکر کیا جو پہلے ہی چاؤمن منگوا لیا تھا جو کھانے کے قابل ضرور تھا۔ ہوٹل واپسی پر آم خریدے گئے تاکہ کڑاہی کا غم غلط کیا جا سکے، آم کھا کر ہم سو گئے، صبح ناشتے کا پروگرام رات کے کھانے کے تجربے کی بنا پر چھتر پلین پہنچنے تک ملتوی کر دیا گیا، چھتر پلین پہنچ کر لذیذ ناشتہ کیا اور پھر مانسہرہ سے ہوتے ہوئے ٹیکسلا آ کر رکے اور دوپہر کا کھانا کھایا گیا، وہاں سے ہم رات قریباً گیارہ بجے واپس لائلپور پہنچ گئے، یوں ایک پُر لطف سفر اختاتم کو پہنچا۔
اگر آپ اس سفر پر جائیں تو چند باتوں کا خصوصی خیال رکھیں
۱۔ سن بلاک کریم، گرم شال وغیرہ ساتھ رکھیں
۲۔ جہاں تک ہو سکے خود کھانا پکائیں یا پھر مقامی ڈشز کھائیں، خود پکانے کے لئیے برتن اور سیلنڈر ساتھ رکھیں
۳۔ چلاس سے داسو آنا ہو تو شام تین بجے سے پہلے پہلے کے پی کے میں داخل ہو جائیں ورنہ راستہ بند کر دیا جاتا ہے
۴۔ جاتے ہوئے جو جگہ اچھی لگے ضرور رکیں، واپسی پہ مت چھوڑیں کیونکہ واپسی پر رکنا مشکل ہوتا ہے

امید ہے یہ تحریر آپکے لئیے مددگار ثابت ہو گی، پسند آئے تو کمنٹ کیجئیے گا
Twitter: @wacas