Saturday 8 February 2014

ہمیں کوئی حق نہیں

کچھ روز پہلے میرے دفتر میں ایک صفائی والا آیا اور اپنی ایک دکھ  داستان سنا ڈالی. اسکے گھر کو کچھ روز پہلے آگ لگ گئی تھی جس کی لپیٹ میں آ کر اس کی بیوی اور دو بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. اب اسکے پاس نہ رہنے کو گھر ہے اور نہ ہی گھر والے . کمپنی نے اسکی کچھ مدد تو کی لیکن اس قلیل امداد سے ایک گھر بنانا ناممکن ہے. تب میرے  ذہن میں خیال آیا کہ سوشل میڈیا پہ دوستوں سے کہا جایے اور ہو سکے تو کچھ امداد اکٹھی کر کے اس غریب کو دے دی جایے، ایک پیغام ترتیب دیا اور سوشل میڈیا کی ٢ سائٹس ٹویٹر اور فیس بک پر ڈال دیا گیا ، بیشمار لوگوں نے اسے آگے پہنچایا کئی ریٹویٹس ہوئیں اور مجھے امید نظر آئ کہ اب کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا، دیں گذرتے چلے گیے شیئرز اور ریٹویٹس بڑھتی چلی گئیں لیکن کہیں سے بھی کسی نے بھی اس غریب کی امداد نہ کی . تب مجھے اس سوشل میڈیا پے چلائی جانے والی اکثر کمپینز کا خیال آیا. کبھی کوئی خون کا عطیہ مانگتا ہے تو کبھی صرف دعا کا طلبگار ہوتا ہے، کیا ان ساری کمپینز کا حال بھی اسی ترھا ہوتا ہے؟ کہ ہر پڑھنے والا صرف ان پیغامات کو آگے پہنچانے کا کام ہی کرتا ہے؟ کیا صرف ان پیغامات کو آگے پہنچا کر ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے؟ کیا ہم اس قدر بےحس ہو چکے ہیں کہ اپنی کمائی میں سے چند سو روپے نہیں نکال سکتے ؟ اگر ان سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم سوشل میڈیا پے ایسے غریبوں کی تصویریں شیر کریں اور لوگوں سے داد وصول کریں کہ ہمارے دل میں انسانیت کا بہت درد ہے. ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم حکومت یا کسی شخصیت یا کسی ادارے کو تنقید کا نشانہ بنائیں. جب ہم خود اس قدر بے حس ہیں تو دوسروں پی تنقید کا ہمیں کوئی حق نہیں.

اگر میری باتیں آپکو کڑوی لگی ہوں تو میں معذرت خوا ہوں مگر حقیقت تو کچھ یونہی ہے اور حقیقت اکثر کڑوی ہی ہوا کرتی ہے . اپنی رایے سے ضرور آگاہ کیجئے گا .

وقاص  احمد
Twitter:
@WaCaS
E-mail:
gheratjagao@gmail.com

3 comments:

  1. اسی بات کا تو رونا روتا رہتا ہوں میں سوشل سائٹس پر ' لوگ خصوصا غیر سیاسی ایلیٹ کلاس جو دھڑا دھڑ بنگلے کوٹھیاں بنا رہے ہیں تمام بڑے شہروں میں 'جو ہر ماہ یا چھ ماہ یا سال بعد نئی چمکتی گاڑی خرید لیتے ہیں وہ لوگ اپنی دولت جو کہ اصل میں تو الله کی عطا کردہ دولت و مال ہے اس کو تقسیم کرنے پر راضی نہیں ہیں-

    صرف حکمرانوں کو مخالف / سیاسی لیڈرز کو مخالف / مذہبی لیڈرز کو مولویوں کو جرنیلوں کو چوبیس گھنٹے برا بھلا کہتے رہتے ہیں سوشل سائٹس پر ' بھوک اور نا انصافی ہی تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے-

    اک بات ' ہر بندہ جو غریبوں کے بارے میں آواز اٹھاتا ہے وہ بے حس نہیں ہوتا ' کیونکہ کچھ لوگ غریبوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور ان کچھ میں بہت ہی کم ایلیٹ کلاس والے پھر اپر مڈل والے پھر مڈل والے پھر لوئر مڈل والےشامل ہیں اور حتی کہ کچھ غریب بھی دوسرے غریبوں کی مدد کرتے ہیں- وہ بندہ جو آواز اٹھاتا ہے اس کا مقصد ہوتا ہے کہ باقی لوگ بھی سوچیں اور جتنا ہو سکے تقسیم کیا کریں ' کرنا شروع کریں -

    یہ نقطہ اتنا بولا نہیں جاتا اس لئے جب کوئی بات کرتا ہے تو حکمرانوں اور مولویوں کو گالیاں دینے والوں کے پلے نہیں پڑتی یہ بات اور وہ اس بات کو کہیں اور ہی لے جاتے ہیں -

    ReplyDelete