Tuesday 9 May 2017

ساہنو کی۔۔۔





مہر فتح علی سے نمبر داری تو جاتی رہی مگر پنچائیت آج بھی انکے گھر کے سامنے لگے نیم کے درخت کی چھاؤں میں ہی بیٹھا کرتی ہے، گاؤں کے چھوٹے موٹے فیصلے تو چٹکیوں میں ہی نمٹا دیا کرتے تھے مہر صاحب، کبھی جو کوئی بڑا مسئلہ آتا تو ایس ایچ او کے حوالے کر کے خود چند دن واسطے سیر سپاٹے پہ نکل جایا کرتے تھے، گاؤں کے نمبردار چوہدری عنایت کو دیکھ کر اکثر ناخوش ہو جایا کرتے تھے مہر صاحب، جب سے نمبرداری چوہدری کے پاس گئی تھی مہر صاحب کو چند پنچائیتیوں کے سوا لوگوں نے دور سے سلام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا، اور چوہدری کو مہر صاحب اس لئیے ایک آنکھ نا بھاتے تھے کیونکہ مہر صاحب اکثر علاقے کے ایس ایچ او سے مل کر چوہدری کے خلاف کسی نہ کسی چکر کو چلائے رکھتے تھے۔ ایک دن ساتھ والے گاؤں سے کچھ مہمان آئے چوہدری کے پاس، کسی لڑکا لڑکی کا کوئی مسئلہ تھا جسکا حل چاہتے تھے، چوہدری نے مہر صاحب کو بھی بلا لیا تاکہ مسئلہ باہمی مشاورت سے حل کیا جائے۔ مہر جب کمرے میں داخل ہوا تو مہمان اور چوہدری باتوں میں مشغول تھے، کسی نے مہر کی آمد پہ توجہ نہ دی، مہر خاموشی سے بیٹھ گیا، خیر گفت و شنید ہوئی اور مسئلے کا حل نکال لیا گیا، جاتے ہوئے مہمانوں میں سے ایک شخص نے مہر سے پوچھ لیا کہ کیا وہ چوہدری کا کوئی خاص آدمی ہے؟ مہر کا پارہ چڑھ گیا اور پھنکارتا ہوا وہاں سے رخصت ہو گیا، اس دن مہر نے سوچا کے کچھ ایسا کیا جائے کے اسکی پہچان سبکو ہو، سب اسے بھی دور سے سلام کیا کریں۔
مہر نے اگلی صبح ہوتے ہی ایک پنچائت بلائی، ساتھ میں چند مراثیوں کو بھی مدعو کر لیا، جب سب اکٹھے ہوئے تو مہر نے دھواں دار تقریر شروع کر دی، چوہدری عنایت پر دوسرے تھانے کے ایس ایچ او سے مل کر اپنے تھانے کے ایس ایچ او پر دباؤ ڈلوانے کا الزام اور مزید کئی الزامات دھر دیے، جتنے فلمی و کتابی شہہ جملے اسے یاد تھے سب کہہ ڈالے، پنچائیتی تو حیران ہو کر دیکھتے رہ گئے البتہ مراثیوں نے واہ واہ کے نعرے لگا دیے، اور دیکھتے ہی دیکھتے دور دور کے دیہاتوں تک مہر صاحب کے نام کی چرچہ ہو گئی، مہر فتح علی کا سینہ چوڑا ہو گیا، اب وہ اپنی ہر چھوٹی سے بڑی پنچائت میں مراثیوں کے لیے خوصوصاً چارپائیاں بچھواتا اور انکے کھانے کا بھی مناسب انتظام کیا جاتا، دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے تمام دیہاتوں کے پنچائیتیوں نے بھی اس روایت سے فائدہ اٹھایا اور مراثیوں کو پنچائیت کا ایک لازمی جزو بنا لیا، مراثی کافی خوش تھے کے بیٹھے بٹھائے فن کی قدر بھی ہو گئی اور آمدن کا انتظام بھی۔ ہر پنچائیت میں مہر کے جملے مشہور ہوا کرتے تھے، اکثر تو پرانی پاکستانی فلموں سے چوری کئیے ڈائلاگ بول دیا کرتا تھا، اکثر لوگ تو ایسے تھے جو کیس کو جانتے بھی نہ ہوتے مگر مہر کے مصالحےدار جملے سننے پنچائیت پہنچ جایا کرتے یا پھر مراثیوں کی خصوصی محفلوں میں جایا کرتے جہاں  مراثی ان جملوں پہ مزید نمک مرچ چھڑک کر لہلہا کر پیش کیا کرتے، ایسی محفلوں کا کچھ فائدہ رشید چائے والے اور مشتاق سوڈا واٹر والے کو بھی ہو جاتا کہ مصالحے دار جملے سننے کے شوقین جب محفل میں آتے تو کوئی چائے منگواتا تو کوئی سوڈا واٹر پی کر جملوں کے مزے لیتا۔
کچھ عرصہ گزرا تو حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا، مہر فتح علی نے پنچائت چند سینئیر پنچائیتیوں کے حوالے کی اور الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا، مگر جیسے جیسے الیکشن قریب آتا گیا مہر کے پیچھے نعرے لگانے والے کم ہوتے گئے، کیونکہ جن مراثیوں کے نعروں پہ مہر صاحب خود کو مقبول عوامی نمائیندہ سمجھ بیٹھے تھے انکو تو صرف پنچائیت سے ملنے والی آمدن سے غرض تھی۔ خیر الیکشن ہو گئے اور مہر صاحب کو بُری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب مہر صاحب تو دوبارہ سے گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی ڈالی ہوئی روایت کی وجہ سے مراثیوں کی خوب چاندی ہو رہی ہے، ہر پنچائیتی مراثیوں کے لئیے خصوصی انتضامات کرتا ہے تاکہ دور دور کے دیہاتوں تک اسکے نام اور انصاف کے قصے مشہور ہوں اور ہر شخص دور سے سلامیاں دے پنچائیتی کو، چوہدری صاحب اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، کبھی کبھی اگر زیادہ مقبولیت ہونے لگے چوہدری صاحب کی تو ایس ایچ او اور پنچائیتی مل کر انہیں کسی کیس میں طلب کر لیتے ہیں اور مراثیوں کے نعروں سے مزہ دوبالا کر لیتے ہیں، گاؤں کے چند پرانے بابے چوہدری کی بے بسی دیکھ کر کُڑھتے ہیں، حقے کا کش لگاتے ہیں اور کہتے ہیں
چلو ساہنو کی۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment