Thursday 11 June 2015

ڈریکٹ حوالدار



السلام علئیکم معزز قارئین!
چھے سال پہلے پاکستان کی کرکٹ کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی تھی، لاہور میں لبرٹی مارکیٹ کے قریب ان پر حملہ کیا گیا، جس میں مہمان ٹیم کو بچانے میں ایک ڈرائیور اور پنجاب پولیس نے اہم کردار ادا کیا، پاکستان کا نام پوری دنیا میں بدنام ہوا، بینالاقوامی کرکٹ ختم ہو گئی، حکومت اور پی سی بی کی مشترکہ کوششوں سے چھے سال بعد آخر کار کرکٹ کی واپسی ممکن ہوئی اور زمبابوے کی ٹیم دورے کے لیے آمادہ ہو گئی. ایسے میں سب سے اہم کام مہمان ٹیم کی حفاظت تھا، پنجاب پولیس نے یہ ذمےداری بخوبی نبھائی، مہمان ٹیم بخیر و عافیت دورہ مکمل کر کے واپس چلی گئی، اس دورے کی پر امن تکمیل کا فایدہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا جب مزید ٹیمیں پاکستان کا رخ کریں گی، لیکن میڈیا پر پولیس کے اس کارنامے کا ذکر تک نہ ملا، پنجاب پولیس زیادہ تر خبروں میں تبھی جگہ بنا پاتی ہے جب کوئی غلطی کرتی ہے، ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پولیس کی ایسی تصویر پینٹ کرتا ہے کہ عام آدمی پولیس کے پاس اپنے جائز معملات بھی لیجانے سے ڈرتا ہے، پچھلے دنوں کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ ہوا، کسی ذاتی معاملے کے لیے ایف ای آر کا درج ہونا ضروری تھا، اور جیسا کہ پہلے بیان کیا کہ عام آدمی پولیس سے گھبراتا ہے، میں بھی پریشان تھا، ایک دو دوستوں سے رابطہ کیا کہ کہیں سے کوئی سفارش مل جائے تو تھانے کا رخ کیا جائے مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا، تین چار روز ادھر ادھر ٹکریں مارنے کے بعد چار و ناچار خود ہی تھانے جانا پڑا، دفتر سے اپنے اسسٹنٹ کو ساتھ لیا تاکے واپسی پہ زخمی ہونے کی صورت میں کوئی مجھے اٹھا کر گھر تک پہنچانے والا تو ہو، میں اور میرا اسسٹنٹ تھانے میں داخل ہوئے، سیکورٹی پہ مامور ایک پولیس والے سے محرر کے کمرے کا پتہ دریافت کیا اور ڈرتے ڈرتے محرر کے کمرے میں پہنچ گئے، ذھن میں محرر کا نقشہ جو بنایا ہوا تھا چھن سے ٹوٹ گیا، میرا خیال تھا کہ ایک صاحب بڑی سی توند والے، دھوتی اور بنیان میں ملبوس بیٹھے ہوں گے، یہ وہ نقشہ تھا جو میڈیا نے میرے دماغ میں بنایا تھا، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں ایک دیہی علاقے کے تھانے میں گیا تھا، خیر جب سامنے دیکھا تو ایک نوجوان نہایت مناسب جسامت والا، یونیفارم پہنے بیٹھا تھا، مجھے دیکھتے ہی اس نے آنے کی وجہ دریافت کی، میں ابھی لب کشائی کرنے ہی والا تھا تو وہ بہت عزت سے بولا کہ جناب بیٹھ کر تسلی سے مدّعا بیان کریں، ساتھ ہی اپنے کسی ماتحت کو بلا کر پانی لانے کا کہا، شاید وہ میری گھبراہٹ بھانپ گیا تھا، خیر قصہ مختصر کرتا ہوں، میں نے اپنا مسلہ بیان کیا، اس نے پرچہ کاٹا اور اسکی کاپی میرے حوالے کر دی، میں نے شکریہ ادا کیا اور دوستوں کی جانب سے دئیے گئے مشورے کو ذھن میں رکھتے ہوۓ اسے کہا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے گا، وہ مسکرا کر بولا کہ آپ کا کام ہو گیا ہے اب آپ بےفکر ہو کر جائیں، میں واپس دفتر آ گیا۔
 میں اس حقیقت کو ہر گز جھٹلا نہیں سکتا کہ اور بہت سے شعبوں کی طرح پولیس میں بھی اچھے اور برے دونو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا نے پولیس کو اس قدر بدنام کر رکھا ہے کہ آم عادمی یہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ پولیس صرف کرپٹ لوگوں سے بھری ہے، جہاں پولیس میں برے عناصر ہیں وہاں بہت سے اچھے لوگ بھی موجود ہیں، خاص طور پر پنجاب پولیس کا ذکر اس لئیے کر رہا ہوں کہ میں خود پنجاب میں رہتا ہوں، پنجاب پولیس کے اچھے اور محنتی جوانوں کی دن رات خدمت کا نتیجہ ہے کہ پنجاب میں جرائم کی شرح باقی صوبوں سے بہت کم ہے، پولیس کے جوان ہی ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی کے سب سے کم واقعات پنجاب میں ہوتے ہیں، یہ لوگ سینہ سپر ہو کر ناکہ بندیوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور ہم لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں، ایسے میں چند برے واقعات کو نمایاں کر کے پیش کرنا اور پولیس کی اچھی کارکردگی پہ چپ سادھ لینے سے پولیس کے ان جوانوں کا حوصلہ کم ہوتا ہے، ہمیں چاہئیے کہ پولیس کی اچھی کارکردگی بھی اسی طرح  بیان کریں جیسے ہم بری کاردگی پہ شور برپا کرتے ہیں۔
ایک چھوٹے سے واقعے نے میری سوچ کا رخ تھوڑا سا تبدیل کیا تو سوچا آپ لوگوں سے بھی شئیر کیا جائے۔ اپنی رائے سے آگاہ کیجئیے گا۔ آپکے قیمتی وقت کا شکریہ، ولسلام
Twitter: @wacas

6 comments:

  1. ایک اچھی تحریر ہے اسی طرح پولیس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پولیس اور خصوصاً پنجاب پولیس کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا ہے

    ReplyDelete
  2. اچھی تحریر وقاص بھائی، پولیس پر تبرا کرنے میں سب آگے ہوتے ہیں، مگر ان کی قربانیوں کی داستان سنانے والا کوئی نہیں، مجھے آج بھی بچپن میں دیکھے گئے ڈرامہ سیریل دھواں کے اے ایس پی اظہر کا ڈائلاگ یاد ہے، "اگر پولیس کی گولی سے کوئی مجرم بھی مر جاتا نا، تو اگلے دن اخباروں میں شہ سرخیاں لگی ہونی تھیں، مگر آج پولیس والا مرا ہے تو کوئی بولنے والا ہی نہیں، but I ll speak for him, he was working for me 1000 km away from his home"-اس ایک ڈائلاگ میں پولیس بارے معاشرے کا رویہ بتا دیا گیا ہے، بائی دا وے میں بھی پولیس پر ایک بلاگ لکھ رہا ہوں ☺

    ReplyDelete
  3. بہت خوب وقاص بھائی
    تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے اور اردو میں بلاگ تحریر کرنے پر مبارکباد قبول کریں
    لکهتے رہیے
    اللہ تعالیٰ آپ کو زہنی اور قلبی وسعتیں عطا فرمائے آمین

    ReplyDelete
  4. اس طرح کی مثبت باتوں کا عوام کے ساتھ شئیر کیا جانا بہت ضروری ہے
    مسائل بہت گھمبیر ہیں. اس میں کوئی شک نیں مگر اگر انکے لیئے اٹھائے گئے مثبت اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائیگی تو درست سمت میں یہ مشکل سفر مزید طویل اور پیچیدہ ہو سکتا ہے.

    کرکٹ والے ہی معاملے کو لے لیجئے
    سٹیڈیم میں میچ ہو رہا تھا جبکہ باہر پنجاب پولیس کے جوان اپنی جانوں کی قربانی دے رہے تھے. لیکن فرض کی ادائیگی میں جان قربان کردینے والے نوجوانوں کو کیا ملا. ایک دن کی میڈیا کوریج - زبانی کلامی وعدے

    پنڈی میں ہونے والے حادثہ انتہائی غمناک ہے اور اسکے مجرموں کو سزاء ملنی چاہیے. مہذب معاشروں میں ناکے پر کھڑی پولیس کا احترم کیا جاتا ہے اور جسے روکا جائے اس پر رکنا فرض ہوتا ہے. پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ نہ رکنے والے نوجوانوں کا پیچھا کرتے اور انہیں گرفتار کرتے اور پھر کسی فون کال پر انہیں چھوڑ دیتے. لیکن گولیاں چلانا انتہائی غلط فیصلہ تھا. لیکن ہمیں بھی ایک دفعہ ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی اصلاح کب کرینگے. اگر پولیس کا کوئی اہلکار اپنے فرض کی ادائیگی کیلئے ہمیں روک رہا ہے تو ہم وہاں سے بھاگ کر انہیں گولی چلانے کا موقع کیوں فراہم کر رہے ہیں. یہ میڈیا کی بدنیتی ہے کہ اسکا تمام تر فوکس پولیس کی غلطی پر ہے مگر وہ عوام کو ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنے فرائض پہچاننے کی تلقین نہیں کر رہا.

    آپ نے جس بدلے ہوئے تھانہ کلچر کا ذکر کیا ہے. یہ واقعی ایک حقیقت ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان کو عوام کی مدد کیلئے تعینات کیا گیا ہے. ابھی مزید وقت لگے گا لیکن انشااللہ وہ وقت ضرور آئیگا جب ہم کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کے ہم پلہ کھڑے ہونگے. لیکن اسکے لیئے صرف پولیس ہی کو نہیں بدلنا ہوگا. ہمینن بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی اور اپنے آپکو مہذب شہریوں کی طرح قانون کی پاسداری کرنی ہوگی.

    شکریہ

    ReplyDelete
  5. بہت عمدہ اور بالکل سہی کیا آپ نے ہم لوگوں نے اپنی پولیس کے متعلق زیادہ ہی برا سوچا ہوا ہے اچھے برے لوگ تو ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں ایک بار پھر بہت عمدہ تحریر

    ReplyDelete
  6. بہت عمدہ اور بالکل سہی کیا آپ نے ہم لوگوں نے اپنی پولیس کے متعلق زیادہ ہی برا سوچا ہوا ہے اچھے برے لوگ تو ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں ایک بار پھر بہت عمدہ تحریر

    ReplyDelete